پاکستان میں بھارتی ثقافت کے اثرات

Posted on at


 ایک کے بعد ایک ایسے پروگرامز کیے جانے لگے جن میں مختلف عمارتوں، ویرانوں اور جنگلوں میں غیر مرئی مخلوق کی موجودگی ک ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ان میں کتنی سچائی اور صداقت تھی اس کا اندازہ آپ کو ان واقعات سے ہو جائے گا جن کا ذکر میں آپ کے سامنے پیش کرنے جا رہا ہوں تا کہ آپ خود انڈہ کر سکیں کے ان فضول اور بیکار قسم کی حرکات سے ایک عام لوگوں کی زندگی میں کا اثر پڑتا ہے


میں کسی چھوٹے گاؤں یا قصبے کا ذکر نہیں کر رہا یہ واقع کراچی کے عین وسط میں واقع ملیر کے ایک سکول کا ہے، اس سکول کو اگر اپپ خود دیکھہ لیتے تو شاہد آپ بھی وو ہی کہتے جو میں کہہ رہا ہوں، اس وقت اس سکول کی حالت کچھ یوں تھی- اس کے دیواریں آسیب زدہ نظر آ رہی تھیں، اس نے بوسیدہ چھت کھڑکیوں اور دروازوں سے بے نیاز دیواریں وحشت سے بھر پور ماحول، صدیوں پرانا برگد کا ایک پیڑ یہ سب کسی بھی ایسے پروگرام کے لیے ایک ائیدیل لوکیشن ہو سکتا تھا جو جنات کی تلاش پر مبنی ہو


اس لیے کچھ برس پہلے یہاں پر ایسا ہی ایک پروگرام ھوا جم میں کچھ اہل محلہ نے اس سکول سے عجیبب و غریب آوازوں کی گواہی دی اور ایک ادمی نے تو اپنی آنکھوں سے یہاں پر ایک سر کٹا کو دیکھنے کے داستان بھی بیان کر دی، جب اس پروگرام کی ریکارڈنگ شروع ہوئی تو بھوت بنگلہ نما اس سکول کے اک کمرے سے رات کے آخری پہر ایک کلاس لگنے کے آوازیں سنائی دیں- ریکارڈنگ  کرنے والوں کو ایسا لگا کہ جیسے آدھی رات کا بعد کوئی استاد بچوں کو سنق پڑھا رہا ہو- رہی سہی کسر ان لوگوں کے پاس جدید آلات نے نکال دی جن پر ماحول کے تبدیل ہونے کے اشارے ہونے لگے، جب یہ پرگرام نشر ہوا تو کراچی کی علاقے ملیر کا یہ سکول مصدقہ طور پر ایک سر کٹے کے اماجگاہ جانے لگا یہ بات پہلے بھی کسی نہ کسی طرح، مشہور تھی لیکن اب تو اس پر میڈیا نے مہرین لگا دی تھیں رہی سہی کسر ایک اور رپورٹ نے نکال دی جو بعد میں ایک اور نیوز چینل پر نشر ہوئی، اب لوگوں کو اس بات کا یقین ہو گیا تھا کہ اس سکول میں ایک سر کٹا رہتا ہے اور وہ رات کے کسی پہر اپنے شیطانی شاگردوں کو ہوائی علوم سکھتا ہے


اگر بات صرف ان افواہوں تک محدود رہتی تو شاہد کو زیادہ نقصان نہیں تھا لیکن ہوا یوں کہ سرکاری سکول میں پڑھنے والے بچوں کے والدین نے اپنے بچوں کی زندگیوں کو ان کی تعلیم سے اہم جانا اور اس سکول میں موجود سر کٹے کے خوف سے اپنے بچوں کو سکول بھجنے سے کترانے لگے دیکھتے ہی دیکھتے سکول میں سر کٹے کے خوف سے بچوں کی تعداد آدھی سے بھی کم رہ گی


جب کہ سکول کی ہیڈ مسٹرس اور استازہ جو کہ پچھلے بیس سال سے یہاں پڑھا رہی ہیں نے آج تک ایسا نہ تو کچھ دکھا اور نہ ہی کچھ محسوس کیا


اب کچھ دن پہلے ایک اور ٹی وی پرگرام میں اس سکول کی اصل حقیقت کو اس علاقے کے لوگوں کے سامنے لایا گیا جس میں یہ بتایا گیا کہ اس سکول میں ایسا کچھ بھی نہیں ہے اور نہ ہی ادھر کو سر کٹا رہتا ہے، اس کے لیے پروگرام کے لوگوں نے ساری رات اس سکول کے اس کمرے میں گزاری جس کے بارے میں یہ کہا جاتا تھا تھ اس کمرے میں سر کٹا اپنے شاگردوں کو علوم سکھتا ہے


اور سکول کے بچوں کے والدین کے زہینوں سے یہاں کی آسیب زدگی اور پر اسرایت کا خوف ختم کیا جا سکے 



About the author

DarkSparrow

Well..... Leave it ....

Subscribe 0
160