بچوں کی تربیت

Posted on at


اکثر والدین اپنے بچوں سے کسی بھی معاملے میں یکساں رویے اور سلوک کی توقع رکھتے ہیں۔ وہ شکایت کرتے ہوۓ نظر آتے ہیں۔ ہم میں سے بہت سارے اس حقیقت کو جانتے بھی ہے کہ بچے ایک دوسرے سے مختلف ذہنی استعداد کے مالک ہوتے ہیں۔ ان کا فطری رجحان مختلف ہو سکتا ہے۔ انکی عادتیں اور دلچسپیاں ایک دوسرے سے الگ نوعیت کی ہو سکتی ہیں۔ لیکن اس کے باوجود اکثر والدین تقوع رکھتے ہیں۔ کہ انکے بچے ایک جیسے ہو جاۓ۔ حالانکہ اس طرح کی توقعات ایک انسان کے بچے سے کرنا قطعی غیر حقیقی ہے۔

سارے بچے ایک جیسے سانچے میں نہیں ڈھالے جا سکتے۔ خاص طور پر کسی قابل اور ذہین بچے کا حوالہ دے کر بچوں سے بات کرنا بہت عام ہے۔ بچوں کے رویوں کا مطالعہ کرنے والے ماہرین والدین کے اس رویے کو بھی بچوں کے لیئے حوصلہ شکن قرار دیتے ہیں۔ اسطرح کا رویہ یہاں تک کہ بہن بھائیوں کے درمیان بھی اسطرح کی تفریق بچوں میں مخاصمت کا جذبہ پیدا کرتی ہے۔ وہحسد کرنے لگتے ہیں۔ اور اگر بہن بھائیوں کے درمیان اسطرح کا موازنہ کیے جانا عام ہو تو بچے اپنے سگے بہن بھائیوں سے بھی دور ہوتے جاتے ہیں۔

وہ سوچتے ہیں کہ والدین کو دوسرا اس سے زیادہ عزیز ہے۔ اگر تبدیلی لانی ہے تو اسکے لیئے پیار، محبت، توجہ اور حوصلہ افزائی سے کام لینا ہو گا۔ بچے کی شخصیت کا تعین کر دینا بچے کی صلاحیتوں کو محدود کرنے کے مترادف ہے۔ کبھی کبھار حوصلہ افزائی ضرور کرنی چاہیئے۔ لیکن جب آپ انکی ذہانت کا بار بار تذکرہ کریں گے تو انکے ذہن میں والدین کی توقعات پر پورا اترنے کے لیئے دباؤ بڑھ جاتا ہے۔ بعض اوقات یہ دباؤ اس قدر زیادہ ہو جاتا ہےکہ بچے ناکامی کی صورت میں کوئی انتہائی قدم اٹھانے کے لیئے بھی تیار ہو جاتے ہیں۔

پھر ایسے جملوں کی بار بار تکرار سے بچوں میں احساس کمتریپیدا ہونے کے امکانات پیدا ہو جاتے ہیں۔ بچوں کو کم نمبر لینے پر یا کوئی غلطی کرنے پر ایسے الفاظ نہ کہے جائیں جن سے انکی حوصلوں کی ڈوبتی ہوئی کشتی باکل ہی ڈوب جاۓ۔ بچے کی مرضی کی بات آے تو یہ بات تسلیم کرنی پڑے گی کہ جنوب ایشیائی خطے میں بسنے والے والدین کی ایک بڑی اکثریت اس فلسفے کی پیروکار ہے۔ کہ بچے نا سمجھ ہوتے ہیں۔ والدین کو انہیں بتانا ہوتا ہے کہ اچھا اور برا کیا ہے۔ لہذاٰ والدین زیادہ بہتر سمجھتے ہیں۔ کہ انکے بچے کو کیا پہننا ہے۔  



About the author

hadilove

i am syed hidayatullah.i have done msc in mathematics from pakistan.And now i am a bloger at filmannex.and feeling great

Subscribe 0
160