(حضورﷺ کا سفر ہجرت (حصہ دوئم

Posted on at



For first part click here http://www.filmannex.com/blogs/249004/249004/


حضرت ابو بکررضہ نے نہایت ہی عجز سے عرض کیا کہ اس مبارک دن کے لیے ببول کی پتیاں کھلا کر میں نے دو اونٹنیاں پال رکھی ہیں ان میں سے ایک کو پسند فرما کر میری عزت افزائی فرمائیں۔ آنضر تﷺ نے ایک کی قیمت ادا کر دی۔ حضرت ابوبکررضہ نے پاس ادب سے قبول کر لی۔ آنحضرتﷺ انتظام سفر کر کے واپس چلے گئے۔ دارالنددہ کی شیطانی محفل اور وہاں کی ناپاک سازش کا حال صیغہ راز میں رکھا گیا تھا مگر حضورﷺ پر اشارہ ربانی سے سب کچھ منکشف ہو گیا اور آنحضرت ﷺ نے راتوں رات مکہ سے نلش جانے کا حکم پایا تو حضرت علی رضہ کو طلب کر کے فرمایا: علی رضہ! ہمیں ہجرت کا حکم آ گیا ہے۔ تم میرے بستر پر میری چادر اوڑھ کر سو جانا اور صبح کو سب امانتیں واپس کر کے چلے آنا" سید لولاک ﷺ کی سیرت پاک کو دیکھو۔ جانی دشمن بھی یہاں تک آپﷺ کی امانت اور دیانت کے قائل تھے کہ امانتیں اسی امین کے سپرد تھیں۔ آج کی رات آنحضرت کے بستر پر سونا موت کے مہہ میں جانا تھا مگر علی رضہ موت سے کب ڈرتے تھے۔ باوجود اس خطرے کے علم کے جناب امیر رضہ حضورﷺ کے پلنگ پر بے کھٹکے سو گئے۔ ادھر جھٹ سے ہی دشمن گھات میں آبیٹھے تھے۔ آنحضرت ﷺ رات کو اللہ کا نام لے کر باہر نکلے۔ حضورﷺ کی موت کے خواہاں خود موت کی چھوٹی بہن کی آغوش میں پڑتے اونگھ رہے تھے۔ آنحضرتﷺ سورۃ یٰسن تلاوت فرماتے بغیر مزاحمت کےنکل کر حضرت ابوبکر رضہ گھر جا پہنچے۔ جناب امیر رضہ آنحضرتﷺ کے پلنگ پر اس طرح لیٹے تھے گویا کوئی عالی قدر شہزادہ محفوظ محل میں نرم بستر پر آسودہ خواب ہو اور کسی شیریں باغ کے پر بہار نظارے نے اس کے دماغ کو رشک صد گلزار بنا رکھا ہو ساری رات دین کے دشمن کمین گاہ سے نکل نکل کر اور دیدے پھاڑ پھاڑ کر آنحضرتﷺ کے پلنگ کو دیکھتے رہے۔ جناب امیر رضہ کو آنحضرتﷺ کی جہر باکر اطمینان کر لیتے۔ آخر پیغمبرﷺ کے پاک بستر پر جوانی کی نیند لیتے حضرت علی رضہ کو صبح ہو گئی تو ظالموں نے آ پکڑا۔ آنحضرتﷺ کے بجائے حضرت امیر رضہ کو پا کر بہت سٹ پٹائےاور ماتھے کوٹنے لگے۔ حرم میں لے جا کر حضرت علی رضہ کو مبحوس کر رکھا۔ کسی نے کہا: تم اس شغل کو چھوڑ کر اصل شکار کو دیکھو۔ دوڑ دھوپ کرو۔ ابھی بہت دور نہ گیا ہو گا۔



تعاقب کے خیال سے آنحضرتﷺ اور حضرت ابو بکر رضہ راتوں رات مکہ چھوڑ کر جا رہے ہیں۔ اہل وطن کے ہاتھوں بے وطن ہو جانے کے حسرت زامنظر کو تصور میں لاؤاور دیس چوںڑ کر پردیس جانے سالوں کی کیفیت قلب کا اندازہ کر لو! پیارے نبیﷺ کو وطن عزیز خلد پریں کے پر بہار گلزار کی طرح نظر آتا تھا۔ جس خاک پاک کی آغوش میں پل کر جوان ہوئے وہ عالم افلاک سے بہتر دنیا اب چھٹی جا رہی ہے۔ اس بچھڑنے والے دیار کے کوچہ و بازار کا تصور آرہا ہے۔ سینے میں ایک اگ سی لگی جاتی ہے۔ محبوب وطن کی پاکیزہ ہوائیں کوہ و صحرا کی فضائیں آنکھوں میں پھرتی ہیں۔ صبرورضا کے اس مجسمے نے ہجرت کے وقت حسرت بھری نگاہوں سے مکہ کی طرف دیکھا۔ دل میں اک ہوک سی اٹھی۔ آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔ بھرائی ہوئی آواز میں کہا کہ" اےمکہ! تو مجھ کو تمام دنیا سے عزیز ہے، لیکن تیرے فرزند مجھے رہنے نہیں دیتے۔" حضورﷺ کے حسرت بھرے الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ آپﷺ کے پیش نظر کتنا عظیم الشان مقصد تھا، ورنہ کون اپنے ملک ودیار کے باغ و بہار چھوڑ کر غریب الوطنی کی خلش خار سے تلؤوں کو فگار کرنے نکلتا ہے۔ ہاں جو ہمت کر کے آمادہ ہجرت ہوتا ہےوہ مقاصد و مطالب کو پہنچ جاتا ہے۔ تم نے شاید ہی کسی ایسے شخص کا ذکر سنا ہو گا جو مصیبروں سے نجات پانے کے لیے وطن سے نکلا ہو اور اسے چھٹکارا حاصل نہ ہوا ہو۔ آنحضرتﷺ کا اس کسمپرسی کے عالم میں دیس سے پردیس جانا، پھر عزت و اقتدار سے چند برس کے بعد واپس آنا اس امر کے شاہد عادل ہیں کہ حرکت میں برکت ہے اور ہجرت سے سرداری ملتے ہے۔ غرض سہ آفتاب و ماہتاب گھرو ں سے نکل کر بنا بر احتیاط جبل ثور میں جا چھپے ، تا کہ لوگ جب تلاش سے تھک کر واپس چلے جائیں تو منزل مقصود کو چل دیں۔ یہ غار مکہ سے تین میل داہنی جانب واقع ہے صدیق اکبر رضہ کے بیٹے عبداللہرضہ دن بھر کی نقل و حرکت دیکھ بھال کر کے رات کو آ کر اطلاع دیتے تھے۔ حضرت ابوبکررضہ کی بڑی بیٹی اسماءرضہگھر سے کھانا لایا کرتی تھیں اور یار غار کا غلام شام کو بکریاں چراتے چراتے وہاں آنکلتا۔ دونوں کو دودھ پلاتا اور بکریوں کے نقش پاسے حضرت اسماءرضہکے قدموں کے نشان بھی مٹا تا چلا آتا۔ ادھر اہل مکہ کی سنو۔ وہ آنحضرتﷺ کے نقش کے سراغ پر پہلے حضرت ابوبکررضہکے گھر پہنچے۔ ابو جہل نے حضرت اسماء رضہ سے دریافت کیا کہ لڑکی، تیرا باپ کہاں ہے؟ حضرت اسماءرضہ نے لاعلمی ظاہر کی ابو جہل نے ان کے میہ پر اس زور سے طمانچہ مارا کہ کان کی بالی زمین پر آ گری۔ یہاں سے سراغ لگاتے لگاتے وہ غار کے قریب پہنچ گئے۔ ان کے پاؤ ں کی آہٹ سن کر یار غار کے پاؤں تلے زمین نکل گئی گھبرا کر کہا: "حضورﷺ! دشمن سر پر آ پہنچا !" صدیق اکبررضہسر تا پا اضطراب تھے اور منجر صادقﷺ ہمہ تن اطمینان ۔ جب ابو بکررضہ کا اضطراب زیادہ بڑھا ہوا پایا تو محبوب نے محبرضہ سے فرمایا۔ لاَتحزَن اِن اللہَ مَعَنَا۔۔۔۔۔ غم نہ کر۔ اللہ ہمارے ساتھ ہے۔ خوف کے وقت یہ اطمینان صرف نبیوں کا شیوہ ہوتا ہے۔ بہادرہ اور چیز ہےِ صبر و رضا کی راہ دوسری۔ مضطربانہ مقابلہ بہادری ہے، خطرے میں اطمینان قلب کسی اور کیفیت کی طرف اشارہ ہے۔ رسول خداﷺ اور صدیق اکبررضہکو اللہ پر بھروسہ تھا۔ وہ دونوں اسی کے سہارے ضاموش بیٹھے رہے۔ بچانے والے کے ڈھنگ نیارے ہیں۔ دشمن ادھر ادھر دیکھ بھال کر چلے گئے۔ غار کی تنگی اور تاریکی سے پناہ گزینوں کا کسی کو گمان نہ گزارا۔چوتھے روز رور وحدت سے جھلملانے والے ستارے غار کی تاریکیوں سے نکلے۔ بی بی اسماءکھانا لے کر پہنچ گئیں۔ حضرت ابوبکررضہکا غلام اونٹنیاں لے کر آ حاضر ہوا۔ دونوں مبارک سوار سبک رفتار اونٹنیوں پر چڑھ بیٹھے۔ اچانک بی بی اسماءرضہ کو خیال آیا کہ توشہ دان کا منہ باندھنے کا تسمہ تو گھر ہی میں بھول آئی ہوں۔ جھٹ کر کمر بند پھاڑ کر توشہ دان کااوے سے باندھا۔ آنحضرتﷺ بی بی اسماء کی اس بات پر بہت خوش ہوئے اور انہیں ذات النطاقین یعنی دو کمر بندوںوالی کا لقب دیا۔ دل سے آواز اٹھی: اے دو کمر بندوں والی بی بی! تیرا یہ خطاب دو ضہاں کا شرف ہے۔ دنیا کی دولت کے سارے خزانے اس شرف کو حاصل کرنے کے لیے ناکافی ہیں۔


              جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔


 


 



About the author

Noor-e-Harram

i am nor-e-harram from Pakistan. doing BBA from virtual University of Pakistan. Filmannex is good platform for me to work at home........

Subscribe 0
160