حضرت مجدد الف ثانی (حصہ چہارم) شیخ احمد سرہندی

Posted on at



اسی طرح مسلمان صوفیا کا ایک گروہ وحدت الوجود کا پرچار کر رہا تھا۔ ان کے نزدیک تمام کائنات اللہ تعالیٰ کا ہی مظہر ہے۔ بندہ اور اللہ ایک دوسرے سے جدا نہیں۔ انا الحق کا نعرہ لگاتے تھے۔ حضرت مجدد الف ثانی نے اس مسلے پر روشنی ڈالتے ہوئے وحدت الشہود کا نظرےہ پیش کیا۔ اس کا مفہوم ےہ تھا کہ خالق اور مخلوق ایک نہیں ہو سکتے۔ اللہ تعالیٰ خالق ہے جس نے تمام کائنات کو پیدا کیا ہے جبکہ انسان اس کی مخلوق ہے۔


وحدت الوجود کے فلسجے کے ساتھ ساتھ برصغیر پاک وہند میں وحد ادیان کا فلسفہ بھی پیش کیا گیا۔ ان کا مقصد یہ تھا کہ تمام دنیا کے مذاہب ایک ہیں۔ دین اسلام کو ہند مت میں جذب کرنے کی کوشش کی جانے لگیں۔ بھگت کیر، گورونانک اور مسلمان صوفیا ایک ہی صف میں نظر آنے لگے۔ اس نازک موقع پر حضرت مجدد الف ثانی


جرات اور بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس فلسفے کو تسلیم کرنے سے صاف انکار کر دیا۔



آپ نے اسلام اور ہندہ مت کو علہیدہ علیہدہ مذاہب قرار دیا۔ آپ نے فرمایا ےہ کسی صورت میں بھی ایک نہیں ہو سکتے۔ ایل بت شکن ہے دوسرا بت پرست۔ ایک توحید کا حامل ہے دورا شرک کا پچاری، اس طرح آپ نے مسلمانوں میں اسلامی قومیت کا شعور پیدا کیا۔ اور ثابت کیا کہ ہندو اور مسلمان الگ الگ قومیں ہیں۔ ےہ کسی بھی صورت میں ایک نہیں ہو سکتے۔ اس نظریے سے آپ نے دو قومی نظریے کے لئے راہ ہموار کر دی تھی۔ جو بعد میں سر سید احمد خان نے واضح الفاظ میں پیش کیا۔ یہی پاکستان کی بنیا د بنا۔ آپ کی تعلیمات کا اثر تھا کہ جہانگیر کی زندگی میں اسلامی انقلاب برپا ہوا۔ شاہ جہان نے اسلام کی سرپرستی قبول کی۔ اورنگزیب نے فتاویٰ عالمگیری پیش کیا۔مغل حکمرانوں کو اسلام کی طرف راغب کرنے میں مجدد الف ثانی نے نہاےت نمایاں کردار ادا کیا۔ مولانا ابو الاعلیٰ مودودی صاحب نے مجدد الف ثانی کے کارناموں کا اعتراف کرتے ہوئے تحریر کیا ہے کہ مجدد الف ثانی نے نہ صرف ہندوستان میں حکومت کو کفر کی گود میں جانے سے روکا بلکہ تصوف کے چشمہ صافی کو ان آلائشوں سے جہ فلسفیانہ اور راہبانہ گمراہیوں سے اس میں سرایت کر گیئ تھیں پاک کر کے اسلام کا حقیقی تصوف پیش کیا۔ اتباع شریعت کی ایک ایسی تحرک چلائی جس کے ہزار ہا تربیت ئافتہ کارکنوں نے نہ صرف ہندوستان کے گوشوں میں بلکہ وسط ایشیا تک پہنچ کر عوم کے خلاق اور عقائد کی اصلاح کی۔ 


علامہ قبال نے حضرت مجدد الف ثانی کو بر صغیر میں مسلمانوں کا روحانی محافظ قرار دیا تھا۔


وفات:


آپ 10 دسمبر 1664 کو اس جہانی فانی سے رخصت ہو گئے۔ آپ کی وفات کے بعد آپ کے بیٹوں اور خلفائ نے اس تحرک کو جاری رکھا۔ آپ کے صاحبزادے خواجہ محمد معصوم کے ہاتھ پر 9 لاکھ افراد نے بیعت کی۔ آپ کے خلفائ کی تعداد ساتھ ہزار تھی۔ آپ کو دینی خدمات کی وجہ سے مجدد الف ثانی (دوسرے ہزار سال کے لئے دین کی تجدید کرنا والا) کا لقب دیا گیا۔ حقیقی نام کی بجائے آپ کو اسی لقب سے ےاد کیا جاتا ہے۔



بقول اقبال



وہ ہند میں سرماےہ ملت کا نگہبان


اللہ نے بروقت کیا جس کو خبردار


تصنیفات


حضرت مجدد الف ثانی کی مشہور تصنیفات مندرجہ ذیل ہیں۔


رسالہ تہلیلہ، رسالہ آدا ب المریدین، رسالہ مکاشافات غیبیہہ، رسالہ مبدا ئ المعاد، رسالہ اثبات النبوت



About the author

Muhammad989

I am Lecturer in Chemistry at Cadet College Kalar Kahar.... Pakistan.....

Subscribe 0
160