ہم سب کیوں ٹھہرے ہوئے ہیں

Posted on at


ہم سب کیوں ٹھہرے ہوئے ہیں

ہم اکثر دیکھتے ہیں کے جا بجا ٹریفک جام ہوتا ہے اور بہت سے لوگ اس ٹریفک جام میں پھنسے ہوتے ہیں اور سوائے دیکنھے، سوچنے اور انتظار کرنے کے اُن کے پاس اور کوئی کام نہیں ہوتا۔ اور وہ کر بھی کیا سکتے ہیں۔ اور اگر کبھی میں بھی اُن میں ہوتا ہوں تو جو دیکھتا ہوں اس سے نتائج اخذ کرتا ہوں۔ میں دیکھتا ہوں کہ کسی ایک ڈرائیور کی غفلت سے ہزاروں لوگ تکلیف اور اذیت میں مبتلا ہیں۔ میں دیکھتا ہوں کہ جب گاڑیاں باہم دست و گریباں ہیں تو ان کے ڈرائیور بھی باہم دست و گریباں ہیں۔ میں دیکھتا ہوں کہ کوئی کسی کو راستہ دینے پر آمادہ نہیں نتیجہ یہ ہے کہ سب رکے ہوتے پھنسے ہوئے ہیں۔ میں یہ سب جب بھی دیکھتا ہوں تو سوچتا ہوں کہ ہم بھی عجیب لوگ ہیں۔ کیا ہم کسی ذہنی عارضے کا شکار ہیں یا پے در پے سانحات و حادثات نے ہمار ذہنی توازن بگاڑ دیا ہے؟ کیا ہم نچلی سے بلند ترین سطع تک تنظیم سے محروم ہیں؟

یہ وہ سوالات ہیں جن پر اہل علم و دانش ماہرین عمرانیات و نفسیات مستقل غور کرتے رہتے ہیں۔ اہل علم کی محفل میں یہ سوالات اب بہت تسلسل سے زیر بحث آتے ہیں اور یہ بے سبب نہیں۔ پاکستان کے معاملات پر طاقتور طبقات کا تسلط ہمیشہ سے رہا ہے۔ ملکی معاملات میں عوام کی شراکت کبھی ممکن نہیں رہی اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ عوام اور خواص دو الگ الگ دنیاوں کے باسی بن کر رہ گئے۔ ایک جانب ہم غریب ترین ملک ہیں. جبکہ بنگلہ دیش ہم سے بہت آگے نکل گیا لیکن ہم نے اپنی روز بڑھتی ہوئی پسماندگی سے کوئی سبق نہیں سیکھا ایک جانب ہم غریب ترین ملک ہیں تو دوسرے جانب ہماری سڑکیں امپورٹڈ کاروں اور ہماری دکانیں غیر ملکی سامان تعیش سے بھری ہوئی ہیں ہمارے ملک کا نظام جن لوگوں کے ٹیکسوں سے چل رہا ہے وہ غریب تنخواہ دار لوگ ہیں۔ ارتکاز دولت کا یہ حال ہے کہ ملکی وسائل چند ہاتھوں اور طبقوں میں سمٹتے چلے جارہے ہیں۔ ان حالات میں عام آدمی کا مایوس ہونا ملکی معاملات سے لاتعلقی اختیار کرنا اور بالا آخر ڈسپیریٹ ہوکر ذہنی توازن سے محروم ہونا یا خود کشی پر آمادہ ہونا فطری عمل ہے۔

ہم جن حالات اور جس زوال پستی اور اخلاقی پسماندگی کا شکار ہیں اس کے کچھ اسباب و عوامل ، کچھ سائنسی و منطقی توجہیات اور وجوہ دانشوروں کی طرف سے پیش کی جاتی رہتی ہیں لیکن بنیادی باتوں پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ یہاں پر سوال یہ اٹھتا ہے کہ ہماری روز مرہ زندگیوں کے مسائل اور دکھوں کا ذمہ دار کون ہے؟ کیا کوئی غیر ملکی  ہاتھ ہے یا پھر ہمارے اپنے ہمیں روز مرہ بے ایمانیوں ، حق تلفیوں یا ناانصافی پر مجبور کرتے ہیں۔ ہر معاملہ میں نظریہء سازش کا تو دراصل نظریہء ضرورت کی طرح استعمال کیا جانے لگا ہے۔ ہمیں اس بات کا شعور اور ادراک حاصل کرنا ہوگا کہ اگر کوئی غیر ملکی ہمارا دشمن ہے تو اس کا کام بہرحال دشمنی کرنا ہے اور ہمارا کام اس کی دشمنی سے بچنا ہے۔ اگر ہم یہ جان لیں کہ ہمارا دشمن کہیں باہر نہیں بلکہ اندر ہی ہے تو ہمارے بہت سے مسائل حل ہونے کا عمل شروع ہو سکتا ہے۔ میں اکثر سوچتا ہوں کہ ہم سب مسلمان ہیں اگر ہم روز مرہ زندگیوں سے حق تلفی ، بے ایمانی، ظلم، جھوٹ، کرپشن، فرائض سے غفلت جیسی کوتاہیوں کو نکال دیں تو ہم نہ صرف یہ کہ اچھی مسلمان اور ذمہ دار شہری بن جائیں گے بلکہ ہمارے بیشتر دکھوں کا مداوا بھی ہوجائے گا۔

خاص اور طاقتور طبقات کے لئے سب دروازے کھلے ہوئے ہیں۔ ایسے میں عام لوگوں کو اپنے دروازے اور اپنے راستے ایک دوسرے کے لئے خود کھولنے پڑیں گے۔ ستم ظریفی تو یہ ہے کہ وہ بھی ایک دوسرے پر ظلم کر رہے ہیں اور راستے مسدود کررہے ہیں۔ عام لوگوں کی سطح پر عدل وانصاف، خیر خواہی اور ہمدردی کا کم ہونا سنگین المئے کی نشاندہی کرنا ہے اور شاید ہم اسی لئے رکے ہوئے ہیں۔ جو رکے رہتے ہیں وہ پیچھے بھی رہ جاتے ہیں۔



About the author

muhammad-haneef-khan

I am Muhammad Haneef Khan I am Administration Officer in Pakistan Public School & College, K.T.S, Haripur.

Subscribe 0
160