اکیسویں صدی اور جدید سائنس - تیسرا حصّہ

Posted on at


سائنس کی روز افروز ترقی و فروغ نے اس دنیا اس دنیا کا نظام حیات ہی نہیں بلکہ انسان کا انداز فکر بھی بدل دیا ہے اور جیسا کہ میں پہلے عرض کر چکا ہوں کہ حضرت انسان اب توہم پرستی کے جال سے نکل کر حقیقت کی دنیا میں رہ رہا ہے. ابتداۓ آفرینش میں جب انسان بجلی کو چمکتے اور کڑکتے دیکھتا تھا تو مارے خوف کے سجدوں میں گر جاتا تھا. اگرچہ یہ کوئی برا عمل نہیں کہ خدا کے خوف کو مد نظر رکھتے ہوۓ اس کے سامنے سجدہ ریز ہو جانا چاہیئے لیکن اس وقت کا انسان خدائی خوف سے نہیں بلکہ بجلی کی چمک اور کڑک کو کسی ان دیکھے دیوتا کا قہر خیال کرتا تھا. یعنی کہ وہ ایک توہم پرست انسان تھا. سورج، چاند، آگ اور نہ جانے کس کس چیز کو اس نے اپنا دیوتا بنا رکھا تھا. صدیوں سے وہ اپنے ان خود ساختہ دیوتاؤں کے حضور بندگی ادا کرتا چلا آ رہا تھا. سائنس نے ان قوتوں کو قابو کر کے انھیں محکومیت کا طوق پہنا دیا ہے اور اب یہی دیوتا اسی انسان کی خدمت میں مصروف ہیں. اس میں کچھ شک نہیں کہ انسان کو وحدت الوجود اور ایک خدا اور رسول صل الله علیہ وسلم کو ماننے کا درس دین اسلام کی صورت میں نازل ہوا اور قرآن پاک انسان کی رہنمائی اور ہدایت کے واسطے نازل ہوا لیکن میں اپنے موضوع کے آغاز میں اس پر روشنی ڈال چکا ہوں کہ سائنس کی ترقی بھی قرآن کی تعلیمات ہی کی مرہون منّت ہے. قرآنی علوم نے ہی انسان کے طرز فکر میں تبدیلی پیدا کر کے اسے تسخیر کائنات پر آمادہ کیا اور انسان نے اس کائنات کے متعلق نت نۓ انداز میں سوچنا شروع کر دیا



ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ



اور تم اپنے رب کی کون کون سی نعمت کا شکر ادا کرو گے



اس آیت کریمہ سے انسان یہ سمجھنے پر بھی مجبور ہو گیا کہ یہ کائنات تو خدا کی عطا کردہ ان گنت نعمتوں سے بھری پڑی ہے. چنانچہ انسان ان کی تلاش میں سرگرداں ہو گیا. قرآنی علوم سے رہنمائی حاصل کر کے انسان نے سائنسی علوم اپناۓ اور سائنس کے بل بوتے پر خدائی نعمتوں کو تلاش کر کے اسے اپنی اور دوسروں کی بہتری کے لئے اختیار کرتا چلا گیا. میں سمجھتا ہوں بلکہ یہ ایک حقیقت اور روز روشن کی طرح حقیقت ہے کہ سائنس کی ہر ایک ایجاد بلاشبہ نعمت خداوندی ہے. یہ الگ بات ہے کہ انسان نے کچھ ایجادات کو اپنی بہتری کے لئے اور کچھ کو اپنی ہی تباہی کے لئے اختیار کر لیا. یعنی کچھ پر شکر ادا کیا اور کچھ پر ناشکری، یہ ادویات، یہ کارخانے، یہ صنعتیں، یہ بجلی، گیس، پیٹرولیم، یہ جہاز، یہ گاڑیاں، یہ راکٹ، یہ کمپیوٹر، ٹی وی، ریڈیو، یہ فلک بوس عمارتیں، یہ دریا، یہ لہلاتے کھیت، یہ سب خدائی نعمتیں ہی ہیں اور سائنس کی ترقی کے بل بوتے پر انسان نے انہیں اپنی بہتری کے لئے استعمال کیا. آج ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ جن اقوام نے سائنس کو نہیں اپنایا آج وہ زبوں حالی کا شکار ہیں اور باقی دنیا سے بہت پیچھے رہ گئے ہیں. جن اقوام نے سائنسی ترقی کو اپنا وطیرہ بنایا آج ان کا پوری دنیا میں طوطی بول رہا ہے اور مجھے یہ کہتے ہوۓ بہت ندامت اور افسوس ہو رہا ہے کہ آج اکیسویں صدی میں بھی دنیا کی مسلمان اقوام سائنسی ترقی میں دیگر اقوام سے پیچھے نظر آ رہی ہیں




ہمیں اکیسویں صدی کے آغاز کے موقع پر یہ عہد کر لینا چاہیئے کہ ہم یعنی مسلمان سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان میں دیگر اقوام سے آگے نہیں بڑھ سکتے تو ان سے پیچھے بھی نہیں رہیں گے. ہمیں خود کو ان کے ہم پلہ بنانا ہو گا. میں جانتا ہوں کہ میں نے سائنس کی اہمیت و افادیت کے حق میں بےشمار دلائل دئیے ہیں اور اسے انسانی فلاح کے لئے ہر لحاظ سے موضوع قرار دیا ہے. اور اس حقیقت سے میں بخوبی واقف ہوں کہ بہت سے لوگ میرے نظریات اور دلائل سے اتفاق نہ کرتے ہوں. جو سائنس کی بےبہا ترقی کو انسان کے لئے شاید بہت زیادہ موزوں بھی تصوّر نہ کرتے ہوں. لہٰذا میں یہ کہنا چاہوں گا کہ کئی معاملات میں، میں ان کے موقف سے اتفاق کروں گا. میں جانتا ہوں اور آپ سب بھی اس امر سے واقف ہیں کہ سائنس کی نت نئی ایجادات نے آج حضرت انسان کو بہت حد تک سست اور کاہل بنا دیا ہے. پہلے زمانے جیسے صحت مند، تنومند اور طاقتور لوگ اب ناپید ہو رہے ہیں. میں دیکھ رہا ہوں کہ آج کل شاید ہی کوئی لڑکا ہو جس کی عمر سترہ سال ہو اور وہ مجاہد  اسلام محمّد بن قاسم جیسی صحت کا مالک بھی ہو. وجہ اس کی یہی ہے کہ سائنسی ایجادات و ترقی کے استعمال نے آج کے انسان کو جسمانی لحاظ سے بےفکر بنا دیا ہے. وہ کوئی کام اپنے جسمانی اعضاء سے نہیں بلکہ انہی ایجادات سے لے رہا ہے



 


مزید جاری ہے 


============================================================================================================ 


میرے مزید بلاگز جو کہ صحت ، اسلام ، جنرل نالج اور دنیا بھر کی معلومات سے متعلق ہیں ، ان سے استفادہ حاصل کرنے کے لیے مندرجہ ذیل لنک کا وزٹ کیجئے


http://www.filmannex.com/Zohaib_Shami/blog_post


میرے بلاگز پڑھ کر شیئر کرنے کا بہت بہت شکریہ


اگلے بلاگ تک کے لئے اجازت چاہوں گا


الله حافظ


دعا کا طالب


زوہیب شامی 


 


 



About the author

Zohaib_Shami

I am here for writing and reading because it is my hobby

Subscribe 0
160