مانوس اجنبی

Posted on at


کھلتی رنگت، نشیلی آنکھیں - - - - گرد سے اٹے ہوۓ بھورے بال اور پیوند لگا لباس پہنے وہ بچہ آہستہ آہستہ چلتا ہوا میرے پاس آکر روک گیا- اس کے بھورے بال جن میں ہلکا سا سنہرا پن تھا اس وقت بے ترتیب تھے مگر اس بے ترتیبی میں بھی ایک حسن تھا- وقت کی ناگواریاں اسے دھندلا نہیں سکی تھیں- عجیب بات یہ تھی اس کی شفاف بلوری آنکھوں میں گلابی ڈورے تھے اور یہ ڈورے نیند کے یقیناً نہیں تھے کیونکہ اس کی آنکھیں بھیگی ہوئی تھیں- میرے چہرے پر نظر پڑتے ہی اسے حیرت کا شدید جھٹکا لگا وہ ایک قدم پیچھے ہٹا اور لڑکھڑا سا گیا
خلاف معمول میں بلکل اکیلا تھا میرے ہاتھ میں ایک کتاب تھی اور فٹبال گراؤنڈ میں فراغت حاصل کر کے گھر کی طرف رواں دواں تھا- شام کے سائے ڈھل رہے تھے اور سورج اپنی مسافت طے کر کے مغرب کی گود میں سونے جا رہا تھا- بالوں کے چلمن سے آنکھوں کے ستارے جھلملاۓ- اس کی چاندی جیسی رنگت میں شفق کی سرخی جھلک آئی وہ جھیل سی آنکھوں کو مصنوعی حیرت سے پھیلاۓ ہوۓ تھا جیسے کہ رہا ہو

ہم عوام ہیں
صدیوں سے نظام زر کے ڈسے ہوۓ
ہمارے چہرے
بدحالیوں کے کیچڑ سے اتے ہوۓ ہیں
ہماری خواہشوں کے یوسف
اپنی ہی زلیخاؤں کی تہمتوں سے ڈرے ہوۓ ہیں
کبھی "چوبر جی" کے فٹ پاتھ پر
کبھی درجہ سوم کے مسافر خانے میں
ہر عہد ہر زمانے میں
محرمیوں کے ڈھیر پر
بھوک کی چنگیز پر
ہمیں پاؤ گے آبلہ پا
ہم خدا کا نظام ہیں
ہم عوام ہیں

اس کی آنکھوں میں دھیرے دھیرے مسکراہٹ روشن تر ہو رہی تھی اس کے ساتھ ساتھ اعصاب کا تناؤ کم ہو رہا تھا- شائد یہ اس سے ملنے کی خواہش تھی کہ اگلے چند لمحوں میں میری اور اس کی دوستی کا آغاز ہوا

وہ ایک گڈریا تھا جو کہ اپنے ساتھ گڈریوں (جو کہ اس سے بڑے تھے) کے ساتھ بکریوں کا ریوڑ لے کر جا رہا تھا کہ چند بکریاں گھاس کھانے رک گئیں اور یوں بکریوں کی رکھوالی کے لئے وہ بھی رک گیا
"تم جا رہے ہو"میں نے پوچھا اس نے جواب دیا- "نہیں، ہم پہاڑی چراگاه پر جا رہے ہیں کچھ وقت وہاں گزاریں گے تیار مال بیچ دیں گے اور چھوٹے مال کی پرورش کریں گے اور سردیوں کے شروع میں میدانی علاقوں میں آجائیں گے" اس نے اپنی بات ختم کی اور میرے ہاتھ میں پکڑی کتاب پر ہاتھ پھیرنے لگا- شاید علم حاصل کرنے کی خواہش اس کے دل میں بھی بیدار ہو رہی تھی- پھر اس نے میری جیب میں لگے پین کی طرف دیکھا اور بولا "یہ پین مجھے دے دو" میں جانتا تھا کہ یہ پین اس کے لئے بیکار ہے کیونکہ وہ لکھنا پڑھنا نہیں جانتا مگر وہ لکیریں لگانا ضرور جانتا تھا- جب بچہ پہلی دفعہ پین یا پنسل پکڑتا ہے تو وہ بے ترتیب لکیریں کھینچتا ہے اور خوش ہوتا ہے- یہ سوچ کر میں نے پین نکالا اور اسے دے دیا- اس نے اپنے گلے سے غلیل نکالی اور بولا یہ "تم لے لو" میں غلیل نہیں لینا چاہتا تھا- گھلال دیکھتے ہی مجھے وہ چڑیا یاد آگئی جو کسی بچے کی غلیل کا نشانہ بنی اور ہمارے گھر کے آنگن میں آگری - کچھ دیر تک وہ پھڑ پھڑاتی رہی اور پھر ہمیشہ کے لئے ساکن ہو گئی- میں نے چونچ کھول کر اس کے حلق کے اندر پانی ٹپکایا لیکن وہ مر چکی تھی، اس کی آنکھیں کھلی تھی مجھے یوں لگا جسے وہ مجھے کہ رہی ہوں - - - - میں زندہ رہنا چاہتی ہوں - - میں اڑنا چاہتی ہوں - - - چہچہانا چاہتی ہوں - - مجھے مت مارو "درندہ اپنے شکار کو اذیت نہیں دیتا" فطرت نے اسے جو بھی طریقہ سکھایا ہے اسی سیدھے سادے انداز میں وہ اسے ہلاک کرتا ہے اور اگر اس کی خوراک ہے تو اسے کھا لیتا ہے- وہ اذیت رسائی کے نت نۓ کرتب نہیں سوچتا اور انہیں اپنے ہم جنسوں پر نہیں آزماتا- انہیں بے بس کر کے ان طریقوں سے لطف اندوز نہیں ہوتا- یہ صفات صرف انسانوں میں ہی پائی جاتی ہیں اس کے باوجود درندہ خواہ مخواہ بدنام ہے- ہمیں جہاں کہیں بھی ظلم و تشدد اور بربریت و سفاکی کی مثال دینا ہوتی ہے ہم عموماً درندے لفظ استعمال کرتے ہیں- میں اپنے خیال سے چونکا، غلیل ابھی بھی گڈریے کے ہاتھ میں تھی، وہ بولا "دیکھو میں تمہیں چلانا سکھاتا ہوں" یہ کہ کر اس نے غلیل میں پتھر رکھا اور درخت پر بیٹھے فاختہ کے بچے کا نشانہ لیا- میں نے آگے بڑھ کر غلیل اس کے ہاتھ سے لے لی - - - اس نے غلیل مجھے دی اور پین اپنی بوسیدہ جیکٹ کی جیب میں ڈال لیا

ہم نے چند لمحے باتیں کی- باتوں کے دوران وہ صرف ایک دفعہ خود استہزائیہ انداز میں ہنسا گویا کہ ہنسی میں تلخی کی آمیزش تھی لیکن ایک عرصے بعد اس کو ہنسی سماعت کے لئے ایک بڑا ہی دلکش تجربہ تھا- اجنبیت کے دبیز پردوں کے عقب سے دھیرے دھیرے اس کی اصل شخصیت طلوع ہو رہی تھی- اس کی باتیں، اس کے تاثرات میرے لئے حیرت کا باعث تھے
وہ اپنے ہاتھ پھیلا کر گلابی ہتھیلیوں کا جائزہ لینے لگا تو خود میرے دل کے تپتے صحرا میں نمی سی اتر آئی- چند لمحوں بعد اس نے اشارے کرتے ہوۓ بیٹھی بیٹھی آواز میں کہا "تم اب جاؤ" لیکن اس کی آواز شاید مجھ تک نہ پہنچی- اس نے دوبارہ قدرے تیزی سے کہا، لہجے میں تندی اور برہمی تھی "ہمارے درمیان دوستی نہ سہی لیکن کچھ ایسی دشمنی بھی تو نہیں" میں نے ایک طرف ہٹ کر اس کے لئے راستہ چھوڑتے ہوۓ کہا ، وہ اپنی بکریوں کی طرف متوجہ ہو گیا - - - بکریاں گھاس چر کر سیر ہو چکی تھیں- گڈریے نے اپنے ہاتھ میں پکڑی ہوئی چھڑی کو بلند کرتے ہوۓ مجھے "خدا حافظ" کہا اور ہلکے سروں میں گنگناتا ہوا نظروں سے اوجھل ہو گیا

 

 

 

 

 



About the author

Maani-Annex

I am an E-gamer , i play Counter Strike Global Offence and many other online and lan games and also can write quality blogs please subscribe me and share my work.

Subscribe 0
160