سننے میں خبر آئی ہے کے سی ڈی اے نے اکتوبر ٢٠٠٥ کے زلزلے کے بعد ملبے تلے دبے انسانوں کے تلاش کے لیے انسانی رساں کتوں کے حصول کے لیے آرمی ڈاگ سینٹر سے ١٥لبراڈ کتے حاصل کے کیوں کے اس سے پہلے اسلام آباد کی انتظامیہ کے لیے ہنگامی صورت حال سے نمٹنے کوئی نظام موجود نہیں تھا .ان کتوں کی خوراک سرکاری خزانے سے خریدی جاتی ہے تا کے زلزلوں کے وقت یہ کام آ سکیں
کرپشن چونکے ہماری نوکر شاھی کا جزو لازم ہے ان کتوں کی خوراک کے لیے ٢٠ کلو گرام کا خصوصی تھیلا ہوتا ہے جس کی قیمت ٦ ہزار روپے ہے ایک کتا دن میں ١ کلو خوراک کھا لیتا ہے ٢٠١٠-١١ کے مالی سال میں سی ڈی اے نے ١٤ لاکھ جاری کرنے کا آرڈر جاری کیا مگر بحض فنانس ونگ کے افسران نے ملی بھگت سے ١٤ کے بجانے ٥٠ لاکھ جاری کرواۓ مگر خوراک ١٤ ہی کی خریدی گئی .یوں افسران نے ٣٦ لاکھ سرکاری روپیہ ہڑپ کر لیا .
مدعا عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کے جس ملک میں کھربوں کی خورد برد ہو وہاں ٢٦ لاکھ کی کرپشن کچھ بھی نہیں .مگر جب کتوں کو پتا چلے گا تو وہ بھی یہی که دیں گے جس قوم کے حکمرانوں نے ١٨ کروڑ عوام کا مال ہڑپ کرنا ہے اس حکومت میں ١٥ کتوں کی کیا اور ان کی خوراک کی کیا اوقات ہے جب سے پاکستان وجود میں آیا ہے کرپشن کی کیسی کیسی دستانیں رقم ہو چکی ہے ہیں ..........آخر کون اس ظالم نظام کا خاتمہ کرے گا .....نواز شریف .عمران .یا میں اور آپ .....کمنٹ میں بتایے
بلاگ رائیٹر محمّد عثمان