کام کرنے والی عورتوں کے لئے نقل و حمل میں مشکلات - حصہ اول

Posted on at


کام کرنے والی عورتوں کے لئے نقل و حمل میں مشکلات - حصہ اول



گزشتہ چند سالوں کے دوران اس بات کو محسوس کیا گیا ہے کہ خواتین کو درپیش دیگر اہم مسائل میں سے ایک اہم مسلہ نقل وحمل کا ہے، ایک سوال جو بار بار اٹھایا جا رہا ہے کہ آیا پاکستان میں دستیاب نقل وحمل کے ذرائع خواتین کے لئے محفوظ بھی ہیں یا نہیں؟
جہاں تک پبلک ٹرانسپورٹ کی بات ہے، دنیا بھر میں لوگوں کے لئے سواری کے یکساں اور آسان ذرائع فراہم کیئے جاتے ہیں اس سے قطع نظر کہ ان کی جنس یا جگہ کون سی ہے
تاہم، اگر پاکستان میں موجود خواتین کی نقل و حمل کے ذرائع (پبلک ٹرانسپورٹ سسٹم) پر نظر ڈالی جائے تو افسوس کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ اس کا حال بہت برا ہے- اکثراوقات تو خواتین کے لئے مخصوص نشستوں پر بھی مرد حضرت برجمان دکھائی دیتے ہیں جو کہ نہایت دھیٹھائی کے ساتھ خواتین کو کھڑا ہوۓ دیکھ کر بھی اٹھنے کی زحمت نہیں فرماتے
عام طور پر، ہمارے معاشرے میں نقل و حمل کو بظاہر ایک بڑے مسلے کی صورت میں دیکھا جاتا ہے لیکن ارباب اختیار کے لئے شائد ابھی یہ غور طلب نہیں ہے - نہ ہی آنے والی کئی سال تک کوئی اس مسلے کے حل ہونے کی ضمانت دے سکتا ہے- امیر اپنی ایئرکنڈیشنڈ کاروں کے اندر آرام دہ اور پرسکون سفر سے خوش ہیں جبکہ غریب کے پاس وسائل کی کمی ہے جو چاہ کر بھی اس سب مشکلات سے چھٹکارا حاصل کرنے میں ناکام ہے
نئی دہلی میں 2012 کے اواخر میں میں 23 سالہ میڈیکل اسٹوڈنٹ کی چلتی بس میں اجتماعی آبروریزی کی جو سفا کیت سامنے آئي اس سے انسان کا کلیجہ دہل اٹھتا ہے- ہمارے معاشروں کی بے حسی کا اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہو سکتا ہے کہ ایک گھنٹےتک وہ برہنہ حالت میں سڑک پر پڑی رہی اور کوئی اس کی مدد کو نہ آیا- الله نہ کرے ایسا کوئی واقعہ ہمارے کسی گھر کے فرد کے ساتھ پیش آے، لیکن کیا ہمارے حکمران بھی کسی ایسے واقعے کا انتظار کر رہے ہیں؟
انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن (آئی ایل او) نے بار بار خواتین کے لئے محفوظ نقل و حمل کے اقدامات کرنے پر زور دیا ہے- آئی ایل او نے دعویٰ کیا ہے کہ خواتین میں بیروزگاری کی ایک بڑی وجہ نقل و حمل کے ذرائع محفوظ نہ ہونا بھی ہیں
ایسا ہی ایک واقعہ 26 سالہ گھریلو سماجی ورکر شگفتہ ولی کے ساتھ پیش آیا جو ایک سال پہلے جنسی طور پر ہراساں کیے جانے کے بعد اپنی نوکری سے رضاکارانہ طور پر ریٹائر ہو گئیں- وہ کہتی ہیں "میں کام کرنا چاہتی ہوں. اور میرے خاندان کے حالات کے پیش نظر مجھے اس کی انتہائی سخت ضرورت بھی ہے- لیکن میں اپنے آخری تجربے کے بعد سے بس پر سوار ہونے سے خوفزدہ ہوں، دوسری نقل و حمل رکشہ یا ٹیکسی بہت مہنگی ہے جو میں برداشت نہیں کر سکتی" شگفتہ کو اب انتظار ہے کراچی میں صرف خواتین کے لئے مخصوص بس نظام کا جس کے بعد شائد وہ ایک بار پھر سے نوکری کر سکتی ہے
شائد یہ شگفتہ جیسی عورتوں کے لئے ہی تھا، 2012 کے دوران لاہور میں خواتین کو ہراساں کیا جانے کے خطرے کے بغیر سفر کرنے کی پیشکش کی ایک کوشش کے طور پر پنک بس سروس (مرد ڈرائیور لیکن خاتون کنڈکٹر کے ساتھ) کا آغاز کیا گیا- کامیابی کی صورت میں اس کو پاکستان کے دیگر شہروں میں روشناس کروایا جاتا تھا- بدقسمتی سے حکمرانوں کی طرف سے کیا گیا یہ وعدہ بھی محض وعدہ ہی رہا



ایک خیال ہے کہ خواتین خود کا دفاع کرنے کے قابل نہیں ہیں اور اس وجہ سے انہیں گھروں میں ہی رہنا چاہیے- شائد ایک یہی وجہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں لڑکیوں کو اسکول سے دور رکھا جاتا ہے، والدین کے دلوں میں اپنی بچیوں کو لے کر ایک ڈر سا رہتا ہے کہیں ان کی معصوم بچی کے ساتھ کچھ برا نہ ہو جاۓ، گر کہیں کچھ ہو گیا تو وہ معاشرے میں کسی کو منھ دکھانے کے قابل نہ رہیں گے- یہ ایک اہم وجہ سمجھی جا سکتی ہے جس کی وجہ سے آج ہماری خواتین کی ایک بڑی تعداد پڑھ لکھ نہ سکی
رخسانہ جبیں جو کہ 34 سال کی اور چار بچوں کی ماں ہیں ان کا کہنا ہے "میں نے کبھی اپنی بیٹیوں کو اسکول بھیجتے ہوۓ انہیں محفوظ تصور نہیں کیا تھا- مجھے مسلسل پریشانی رہتی تھی کہ کہیں ان کے ساتھ کچھ برا نہ ہو جائے، کہیں ان کو کوئی جنسی زیاتی کا نشانہ نہ بنا ڈالے، کہیں انہیں کوئی راستے میں اغوا یا قتل نہ کر دے " میں نے اس ڈر و خوف کی وجہ سے ان کا اسکول جانا بند کر دیا. اب وہ پڑھ لکھ نہیں رہیں لیکن! زندہ ہیں
یہ سوال یقیناً ہو سکتا ہے کہ خواتین کو ہراساں کرنے کا خوف درست ہے یا غیر معقول؟ یہ بات یقیناً درست ہے بدقسمتی سے بہت سے ایسے واقعیات ہو چکے ہیں جن کو سامنے رکھتے ہوے ہم یہ ماننے پر مجبور ہیں کہ خواتین کو دوران سفر ہراساں کیا جاتا ہے- سحر حفیظ کے مطابق جو "نیا جیون" کی برانڈ اسٹریٹجی اینڈ پارٹنرشپ مینیجر ہیں ان کا کہنا ہے" خواتین کو ہمیشہ نقصان اٹھانا پڑتا ہے، مردوں سے بھری گاڑی میں انھیں ایک چھوٹی سی "محفوظ" جگہ دے دی جاتی ہے" نتیجے میں کم ہی وہ کسی بھی ناخوشگوار واقعے سے خود کو بچا سکتی ہیں


شمیم بانو کی طرح بہت سی کام کرنے والی خواتین کو روزانہ اذیت کا شکار ہونا پڑتا ہے "کئی بار میں نے محسوس کیا ہے مردوں کو غلط ارادوں اور نظروں سے مجھے گھورتے ہوۓ، لیکن! میں کچھ بھی تو نہیں کر سکتی" غیر فعال قانون اور سخت قوانین کی کمی کی وجہ سے بڑی تعداد میں خواتین کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے اور وہ قانون کا سہارا لیتے ڈرتی ہیں، اور یہ سب اسی طرح سے چلتا رہتا ہے- میری دوست اور میں نے شکایت کرنے کی کوشش کی ہے لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا" شیریس شمیم "کوئی بھی نہیں سنتا" وہ ثبوت مانگتے ہیں لیکن میں کس طرح ممکنہ طور پر مجھے غلط ارادے یا گھور رہے ایک آدمی کا ثبوت دے سکتی ہوں؟ بے بسی کا احساس سا ہوتا ہے جب آپ دیکھتے ہیں ایک خاتون ہوتے ہوۓ محفوظ سفر یا نقل و حمل کے لئے کوئی آپ کے حق میں آواز بلند نہیں کر رہا، جو کہ ملازمت سے استعفی اور نفرت کا احساس جنتا ہے




About the author

Maani-Annex

I am an E-gamer , i play Counter Strike Global Offence and many other online and lan games and also can write quality blogs please subscribe me and share my work.

Subscribe 0
160