موروثی سیاست کا خاتمہ ناگزیر

Posted on at


موروثی سیاست کا خاتمہ ناگزیر


گدی نشینی یا جان نشینی دونوں الفاظ کا استعمال روحانیت اور دنیاوی فرمانروی کے ضمرے میں آتا ہے جو اختیارات اور اہم ذمہ داریاں محض خونی رشتوں کو سونپنے کا نام ہے چاہے وہ ریاستی ذمہ داریاں  ہوں یا پیروں مریدوں کی مخصوص حلقہ بندیوں پر اپنے اثر و رسوخ کو قائم رکھنے کے لئے ہوں۔  دوںوں الفاظ کا مفہومی مطلب ایک ہی بنتا ہے کہ عوام پر خاندانی سیاست اور اثر و رسوخ کا حق حکمرانیت جتانا۔ جان نشینی کے اصول پر عمل بادشاہت یا مطلق العنانی کی ماضی کی حکومتوں و سلطنتوں  سے ہوتا چلا آیا ہے لیکن انیسویں صدی میں اسی طرز حکمرانی  کو   بالاآخر لاکھوں لوگوں کی خون کی قربانیوں سے تبدیل کر دیا گیا۔ اب کی بار حکمرانی کا حق عوام کے چنے گئے نمایندوں کو حاصل ہے۔ جن قوموں نے جان نشینی کی حکومت سے جان چھڑانے میں پہل کی وہ آج ترقی یافتہ ممالک کی صف اول کی اقوام ہیں۔ یورپ کے عوام گزشتہ تین صدیوں سے بادشاہت اور اس سے ملحق نام نہاد عیسائی مذہبی جنونیت اور انتہا پسندی کا شکار رہے ہیں اور مذہب کے نام پر لاکھوں انسانوں کا ناحق خون بہایا گیا۔ انقلاب فرانس اسی نظام کے خلاف اعلان جنگ کی ایک کڑی تھا۔



 میاں محمد نواز شریف اور اُن کی صاحبزادی مریم نوازشریف



 آصف علی زرداری اور اُن کے صاحبزادے بلاول بھٹو زرداری



یوسف رضا گیلانی اور اُن کے صاحبزادے عبدل قادر گیلانی



میاں شہباز شریف اور اُن کے صاحبزادے حمزہ شہباز شریف


پاکستان بنے سے پہلے انگریز نے اپنی طرز حکومت کی رٹ اور عمل داری کو اس خطہ پر سختی سے نافذ کرنے کے لئے جاگیرداری نظام متعارف کروایا ہوا تھا اور جاگیرداروں نے اپنی زیر تسلط جاگیر کے غریب مکینوں پر ظلم و ستم برپا کیا ہوا تھا۔  تمام بنیادی انسانی حقوق سے عوام کو محروم رکھا گیا تھا اور عوام محکومیت کی زندگی گزار رہی تھی۔ جو لوگ اس نظام کے خلاف علم بغاوت بلند کر رہے تھے وہ مسلمان مذہبی رہنما تھے جو ایک قلیل لوگوں کا گروہ تھا۔ قیام پاکستان میں بھی انہی رہنماہوں کا کلیدی کردار تھا لیکن قیام پاکستان کے بعد ملکی باگ دوڑ دوبارہ جاگیردار اور نواب نے لے لی جنہوں نے تمام تر توجہ اپنی جاگیروں زمینوں کو بچانے اور اقتدار کی مسند کو برقرار رکھنے پر مبذول کی۔ قوم ترقی سے عدم توجہ سے عوام کی حالت زندگی سدھرنے کی بجائے مزید زوال پیزیر ہوئی اور آج تک پاکستان پر طرز حکومت جانشینی کی شکل میں آ رہی ہے۔ عدالتوں اور تھانوں میں پرانے انگریزی قوانین نافذ العمل ہیں جو جان نشینی کی حکومت کو ڈھال فراہم کر رہے ہیں۔ دنیا کو ملک کے اندر انتخابات کے نام سے عوامی نمایندوں کا چناؤ محض دیکھاوا  ہے لیکن پس پردہ زمینی حقائق اس کے بلکل برعکس ہیں۔ یہ تو بھلا ہو عمران خان کا جو عوام کو اب روشنی دیکھا رہا ہے  اور اس نے حالیہ عام انتخابات میں سرعام دھاندلیوں کا انکشاف کیا چار حلقوں میں بیلٹ پیپر کو فنگر پرنٹ سے تصدیق کا مطالبہ کر رہا ہے لیکن برسراقتدار جاں نشین پارٹی ایسا نہیں کرنا چاہتی اگر اس طریقے سے دھاندلیاں ثابت ہو جاتی ہیں تو حکومت تو اپنا  بسترا بوریا گول کر کے جا  چکی اور ساتھ ساتھ ہمیشہ کے لئےماضی کی طرح انتخابی دھاندلی کے ذریعے آنے والی حکومتوں کے لئے دروازے بند ہو جائے گے۔



 


عمران خان کی شفاف الیکشن اور صحیح مخلص عوامی قیادت کے چناؤں کے لئے بائیو میڑک سسٹم لانے کا مطالبہ ہے  اور آنے والے بلدیاتی انتخابات میں بائیو میڑک سسٹم لانا چاہتے ہیں لیکن اس راستے میں الیکشن کمیشن جو حکومت کی کھٹ پتلی کا کردار ادا کرہی ہے بائیو میڑک سسٹم آنے والے بلدیاتی انتخابات میں لانے سے انکار کر دیا ہے۔ اگر بائیو میڑک سسٹم سے آئندہ کے انتخابات کے لئے  لاگو کر دیا جاتا ہے تو ملک پر جان نشینی اور موروثی سیاست سے عوام کی جان چھوٹ جائے گی۔  شفافیت سے کرائے گئے انتخابات میں عام آدمی کی دلچسپی بڑھ جاتی ہے جو صحیح قیادت اور عوامی نمایدوں کے چناؤ کو آسان بنا دیتا ہے اور ہر کوئی کوشش کرتا ہے کہ پولنگ سٹیشوں پر جا کر اپنا صحیح رائے حق دہی کا استعمال کرے۔ اب کی بار اگر عوام حقیقی معنوں میں ظالم حکمرانوں سے جان چھڑانا چاہتے ہیں آنے والے انتخابات میں شفافیت لانے کے لئے جدید اصلاحات کا پرزور مطالبہ کرنا ہو گا اور جو مخلص اور محب وطن سیاست دان اس نیک کام کے لئے کوشاں ہیں اُن کا ساتھ دینا ہو گا ویسے بھی ہمارے جانشین حکمرانوں کا اعتقاد دنیا پر حکمرانی کرنا ہے اور یہ لوگ روز قیامت کے دن کو ناقابل عمل مفروضہ سمجھتے ہیں لہذا ان کے دلوں میں کوئی رحم ہے نہ خوف، عوام کو اب کی بار ان کے پرفریب ترقی و خوشحالی کی باتوں سے نکل کر حقیقی اور عملی کوشش کرنی ہو گی تاکہ ملک و قوم کو موروثی سیاست کی دلدل سے باہر نکال کر خوشحالی و ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہو سکے۔


=============================================================



160