روزمرہ زندگی میں انسان کو جن لوگوں سے سب سے ذیادہ واسطہ پڑتا ہے وہ اس كے ہمسائی ہیں . اِس اہمیت كے پیش نظر اسلام میں كے حقوق پر بہت زور دیا گیا ہے . قرآن مجید میں جہاں ماں ، باپ ، میاں ، بِیوِی اور دوسرے كے ساتھ حُسْن سلوک اور اچھے برتاؤ کا حکم دیا گیا ہے وہاں كے بارے میں بھی اِس کی تاکید اور ہدایت فرمائی ہے اور تِین قسم سے سے حُسْن سلوک کی خصوصی تلقین فرمائی گئی ہے .
پہلے وہ پڑوسی جن سے پڑوس سے علاوہ بھی کوئی رشتہ ہو . دوسرے ایسے پڑوسی جن سے کسی قسِم کی نا ہو سواائے كے . تیسرے وہ پڑوسی جن سے عارضی توڑ پر تعلقات قائم ہو جائیں جیسے سفر كے ساتھی یا مدراسہ كے ساتھی وغیرہ . ان تینوں قسم كے اور ساتھیوں كے ساتھ حُسْن سلوک کا حکم دیا گیا ہے . .پڑوسی كے دکھ درد غم اور خوشی میں شریک ہونے کا حکم ہے
اگر پڑوسی کو مدد کی ضرورت ہو تو اس کی مدد کرنی چاہیے . وہ قرض مانگے تو اسے دو . محتاج ہو تو اس کی مالی مدد کرو . بیمار ہو جائے تو علاج کراؤ . اس كے گھر ، کھانے پینے کا خیال رکھو . اسے کوئی اعزاز حاصل ہو تو اسے مبارک دو . مصیبت كے وقت اس کی کرو . بغیر اِجازَت كے اپنے گھر کی دیوار اتنی اونچی نا کرو كے اس كے لیے روشنی اور ہوا رک جائے . کہیں سے کوئی میوہ یا سوغات وغیرہ لاؤ تو اسے .بھی دو
اگر پڑوسی کسی وجہ سے معذور ہو تو اس کی مدد اسلامی فریضہ ہے کوشش کی جائے كے اس كے لیے ایسا کام کیا جائے جس سے وہ اپنی روزی کما سکے . اگر وہ اِس قابل بھی نہیں تو اس کی خوراک ، لباس ، مکان اور آرام کا انتظام کرنا ہمسائے کا فرض ہے . اسلام ہرگز اِس بات کی اِجازَت نہیں دیتا كے آپ پیٹ بھر كے سو جائیں اور آپ کا ہمسایہ بھوکا سو جائے .