درد اور اسکے پیچھے پوشیدہ حقیقت پارٹ ٹو

Posted on at


یہاں کہ اسٹریس اور تھکن میں بھی درد کا عنصر جنم لے سکتا ہے۔ اور قطعی حیران نہ ہو کہ ان میں سے بیشتر تکالیف کا درد کش دوا کے بغٰیر ہی خاتمہ کیا جا سکتا ہے۔ آپ اپنی وضع قطع کے اعتبار سے اٹھنے،بیٹھنے، اور لیٹنے کے انداز میں بہتری پیدا کریں، کمپیوٹر کے سامنے متواتر کئی گھنٹوں تک بیٹھنے کے بجاۓ درمیان میں مناسب وقفہ دیں۔ تسلسل کے ساتھ ٹی وی مت دیکھیں بلکہ آنکھوں اور جسم کو آرام بھی دیں۔ لیکن مسئلہ صرف اتنا ہے کہ ہر تکلیف اور بیماری میں گولیاں استعمال کرنا لوگوں کی عادت میں شامل ہو چکا ہے۔

جو احتیاط کے تقاضے پورے کرنے کے بجاۓ محض گولیاں کھانا ہی ضروری سمجھتے ہیں۔ کیونکہ انکے پاس اتنا وقت ہی نہیں ہوتا کہ وہ کسی مرض کی گہرائی کے ساتھ جانچ کر سکیں اور نہ ہی وہ اس زحمت میں مبتلا ہونا چاہتے ہیں۔ کہ کسی تکلیف کی گہرائی میں جا کر دیکھ سکیں۔ کہ اسکی اصل وجوہات کیا ہیں۔ بلکہ وہ درد سے فوری نجات کے لیئے عارضی آرام گولی کی صورت میں حاصل کر لیتے ہیں۔ درد ایک اندرونی، داخلی یا c ہے۔ جسکا جنم عموماً ہمارے تجربات اور مختلف نوعیت کے روابط سے ہوتا ہے۔

درد کی کیفیت پیدا ہونے میں وقت، جگہ احساسات یہاں تک کے درد سے متعلق معلومات بھی ملوث ہوتی ہیں۔ درد کے نفسیاتی پہلو بھی ہوتے ہیں۔ اور اس چیز کی تعمیر اس وقت سے شروع ہو جاتی ہے جب بچہ اس دنیا میں آنکھ کھولتا ہے۔ اور پھر اپنے طور پر زندگی گزارنا شروع کرتا ہے۔ اب چونکہ مادر رحم کا دماغ نہیں ہوتا لہذا بچے کو درد یا تکلیف کا احساس بھی نہیں ہوتا۔ درد جسمانی اور جذباتی یا نفسیاتی حدوں کو پھلانگ کر سامنے آتا ہے۔

درد کسی بھی حالت میں ایک اندرونی اور جذباتی اور ذہنی عارضہ ہے۔ جسے کسی بھی فرد واحد کو سمجنھے میں اس لیئے دقت پیش نہیں آ سکتی کہ وہ اس لفظ سے اوائل عمری میں ہی واقف ہوتا ہے۔ جسے نہ جانے کتنی چوٹوں اور زخموں کے بعد درد کی شدت کا احساس ہو چکا ہوتا ہے۔ درد کا موجب دراصل ٹشوز کی ٹوٹ پھوٹ ہے۔ اور جب ٹشوز کو کسی قسم کا نقصان پہنچتا ہے تو انسان درد محسوس کرنے لگتا ہے۔ کہ جب جسمانی طور پر کسی نوعیت کی ٹوٹ پھوٹ ہو گی اور اندرونی نظام میں ہیجان کی کیفیت پیدا ہو گی تو درد کا نا خوشگوار واقع بھی ضرور ہو گا۔ 



About the author

160