سینتھٹیک گھاس بمقابلہ قُدرتی گھاس

Posted on at


سینتھیٹک گھاس بمقابلہ قُدرتی گھاس

آپ کے مکان کو گھر بنانے میں جہاں آپ اور اُپ کے متعلقین کے خلوص کا عمل دخل ہوتا ہے وہیں ماحولیاتی عناصر بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ مکان کے افراف ہریالی پودوں کی شکل میں یا قدرتی گھاس پر مشتمل لان کا کچھ رقبہ ہو، رہنے والوں کے لئے جنتِ اراضی سے کم نہیں ہوتا۔

قدرتی گھاس لگانا آسان ہوسکتا ہے مگر اسے ترتیب اور سلیقے سے صاف ستھرا رکھنا آسان مرحلہ نہیں۔ آپ کو وقتاً فوقتاً کھاد ، پانی ، مٹی ، کیٹرے مکوڑوں سے تحفظ کے لئے ادویات اور روزانہ کی دیکھ بھال کرنی پڑتی ہے۔ آسٹریلوی باشندوں نے ان بکھیٹروں سے نمٹنے کے لئے سینتھٹیک ٹرف بنالی ہے اب وہاں قدرتی گھاس خال خال ہی دکھائی دیتی ہے اور گھروں کے مکینوں نے کھلے حصوں اور سادہ دیوارں کی آرائش کے لئے یہ مصنوعی گھاس استعمال کرنا شروع کردی ہے۔ پاکستان میں بھی باغبانی سے دلچسپی رکھنے والوں میں ڈرامائی طور پر اس مصنوعی مگر اصلی جیسی گھاس کی مانگ میں اضافہ ہوتا نظر آتا ہے۔

قدرتی ھریالی مھنگا سودا

اصل میں کراچی اور پاکستان کے کچھ دوسرے شہروں میں موسم خاصا خشک ہوتا ہے اور قدرتی گھاس کا صیح حالت مین قائم رہنا اور ہری بھری نظر آنا ناممکنات میں سے ہے۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ لوگوں نے پانی کی کمیابی کے باعث مکانوں کے لان ختم کرکے خوشنما ٹائلیں اور ہینچز لگا کے لینڈ اسکیپ تبدیل کرالئے ہیں یا پھر اس رقبہ کو مختصر کرکے گٹروں کے پانی سے آبپاشی کا طریقہ وضع کر لیا ہے لیکن گندے پانی کی آبپاشی کے بعد حشرات بڑھ جاتے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ بدبودار گیسوں کا اخراج پورے گھر کی فضا مکدر کر کے رکھ دیتا ہے۔ گھاس بلا شبہ ہر بھری نظر آتی ہے لیکن اتنی تکلیفوں اور آلودگی کو سہہ کر کوئی نہیں چاہتا کہ قدرتی گھاس پروان چڑھتی رہے اور میٹھا پانی ان علاقوں میں نقد رقم دے کر خریدا جاتا ہے وہاں روز روز قدرتی گھاس کے نکھار اور خوبصورتی پر وسائل صرف کرنا ممکن نہیں رہتا سو جو ہریالی مہنگی پڑے اس سے دور رہنا ہی بھلا سمجھ کر لوگ قدرتی گھاس اگانے کا خیال ترک کرتے جا رہے ہیں۔

سینتھیٹک گھاس کم خرچ بالا نشیں

یہ گھاس نہ پانی مانگے نہ کھاد تو پھر احتیاطی تدابیر بھی اسقدر پیچیدہ نہیں بس اس مخصوص گھاس پر سورج کے بچاؤ کے لئے اسپیشل الڑاوائلڈ کوننگ کروائی جانی ضروری ہے کیونکہ اوزون کی تبدیلی کی وجہ سے سورج کی حرارت اور تپش میں بھی خاطر خواہ اضافہ ہو گیا ہے۔

یہ مختلف پیمائشوں ، رنگوں اور اقسام کی بنائی جاتی ہے۔ ہرے رنگ کی کسی بھی قدر میں دستیاب ہوتی ہے۔ یہ نرم بھی اتنی ہی ہوتی ہے کیونکہ اس میں خودرو جھاڑیوں کی افزائش ہی نہیں لہزا اس کے کھر درے ہونے کی شکایت بھی نہیں ہوتی۔ یہ بچوں کے نرم ملائم جسم کے لئے خطرہ بھی نہیں ہوتی۔

یہ نسبتاً مھنگی ہے۔

قدری گھاس کے مقبلہ میں سینتھٹیک قدرے مہنگی ضرور ہے مگر یہ ایک بار کا خرچ ہے قدرتی گھاس کی نمو، دیکھ بھال اور جراثیم کش ادویات کے تمامتر اخراجات مکمل کرنے کے بعد یہ اتنی ہی لاگت کی پڑتی ہے اس کے بعد سینتھیٹک سستی اور ارزاں محسوس ہوتی ہے۔

قدرتی گھاس اگا نا دقت طلب پروجیکٹ ہے۔

ظاہر ہے کہ قدرتی گھاس اُگانا دقت طلب کام ہے پہلے زمین کی تیاری، بیج بونے کا عمل، گھاس لگانا اور پھر سائے اور دھوپ کا خیال رکھ کر پانی دینا کچھ بھی آسان مرحلہ نہیں۔ پھر اسے مخصوص افزائش کے بعد کٹاؤ کا دورانیہ چیک کرتے رہنا اور کھاد کی تبدیلی کا خیال رکھنا بہت ماہرانہ انداز کی سُپرویزن چاہتا ہے۔ باغبانی کا فن جاننے والا شخص ہی یہ تمام امور احسن طریقے سے انجام دے سکتاہے۔ سینتھیٹک لان چند برسوں میں اپنی قیمت ادا کرجاتا ہے۔

دنیا بھر میں پانی کا بحران سر اٹھانے لگا ہے تاہم جن علاقوں میں بارشیں تواتر سے ہوتی ہیں وہاں قدرتی ہریالی کا قائم رہنا فطرتی سی بات ہے مگر پاکستان میں بارشیں نہ وقت پر ہوتی ہیں نہ ضرورت کے عین مطابق۔ لہذا یہاں قدرتی ہریالی کا تصور قائم کرنا اور باغات کی افزائش کرنا قطعی آسان نہیں۔ کئی علاقوں میں سرکاری طور پر نصب پائپ لائنوں میں پانی نہیں آتا یا آتا ہے تو راستے ہی میں چوری ہو جاتا ہے اور بقدر ضرورت مہیا نہیں ہوتا اور مہنگے داموں خریدنا پڑتا ہے۔

سینتھیٹک گھاس یوں بھی استعمال میں آسان ترین انتخاب ہے کہ اس کی دیکھ بھال کے لئے کھاد، مٹی، ادویات اور پانی کی سرے سے ضرورت ہی نہیں۔ اس کے بعد موسم کیسا ہی کیوں نہ ہو یہ اپنے خال و خد ترتیب اور رنگوں میں صیح حالت میں اپنی عمر پوری کرتی ہے۔



About the author

muhammad-haneef-khan

I am Muhammad Haneef Khan I am Administration Officer in Pakistan Public School & College, K.T.S, Haripur.

Subscribe 0
160