رمضان مسلمانوں کے لئے ایک مقدس ترین، صبر و تحمل اور رحمتوں کا مہینہ سمجھا جاتا ہے- ایک مسلمان لئے اس ماہ کے دوران روزے رکھنا ضروری ہے- اس کے علاوہ ہم مسلمان صدقہ، زکوة اور فطرانہ دے کر مستحق لوگوں کی مدد کرتے ہیں- اسلامی تعلیمات کے مطابق رمضان المبارک میں نیکی کا اجر کئی سو گنا زیادہ ہو جاتا ہے- یہی وجہ ہے کہ مسلمان ایک دوسرے پر سبقت حاصل کرنے کی کوشسش کرتے ہیں (ایسے کام کرنے میں جو الله کو خوش کر سکیں) اس سلسلے میں ایک بات ہمیشہ ذہن میں رکھنی چاہیے کہ الله صرف انہی سے خوش ہوتا ہے جو یہ سب کام ایک اچھی نیت اور بے غرض ہو کر کرتے ہیں
اب ہم رمضان مبارک کا بابرکت مہینہ گزار چکے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ہم نے ان مقاصد کو حاصل کیا ہے جس کے لئے ہم مسلمانوں کو رمضان مبارک کے مقدس کے لئے منتخب کیا گیا ہے؟ کیا ہم وہ سب سبق سکھ چکے ہیں جو الله اور اس کے آخری رسول (ص) کی طرف سے دی گئی ہدایات کے مطابق ہمیں ہماری زندگیاں گزارنے میں مدد کر سکتے ہیں؟ اس کا جواب دینے کے لئے ہمیں ہمارے ضمیر پر غور کرنے کی ضرورت ہے، اگر ہم ایسا کرنے میں ناکام رہے ہیں تو اس کی مثال ایسے ہے جسے ہم ایک ایسی ٹرین کو وقت پر پکڑنے میں ناکام رہے ہیں جسے اب ہم اگلے سال ہی دوبارہ پکڑ سکتے ہیں
عید، رمضان کا اختتام سمجھا جاتا ہے- اللہ نے رمضان کے مقدس مہینے کے آخر میں عید الفطر منانے کے لئے مسلمانوں سے کہا ہے کیونکہ انہوں نے الله کی رضا اور خوشی کے لئے روزے رکھے اور اب انہیں اجازت دے جاتی ہے کہ وہ تمام چیزیں کھائیں جو الله نے اپنی مخلوق کے لئے پیدا کی ہیں- یہی وجہ ہے کہ رمضان میں الله کے حکم کے مطابق روزے رکھنے پرعید کو الله کی طرف سے ایک انعام سمجھا جاتا ہے - تمام مسلمان اس دن کو بہت خوشی سے مناتے ہیں- وہ نئے کپڑے اور جوتے پہننے ہیں، مزیدار کھانے کی اشیاء بناتے ہیں، اور میل جول کے لئے ایک دوسرے کے گھروں میں جاتے ہیں
لوگ عید کے لئے خریداری ماہ رمضان کے پہلے سے شروع کر دیتے ہیں اور رمضان کے مقدس مہینے کے ہر گزرتے دن اس میں اضافہ ہوتا جاتا ہے اور چاند کے مطلع ہونے کے سرکاری اعلان کے فوراً بعد خریداری اپنے عروج تک پہنچ جاتا ہے
ہر سال پاکستان میں اربوں روپے عید کے موقع پر خرچ کئے جاتے ہیں- بھاری اخراجات نہ صرف جوتوں، کپڑوں اور زیورات پر بلکہ کھانے کی اشیاء کے ساتھ ساتھ گھروں کی سجاوٹ پر بھی پیسے خرچ کئے جاتے ہیں- کوئی شک نہیں، عید ہمیں اپنی اسلامی روایات کے مطابق گزارنی چاہیے- لیکن اس مقصد کے لئے بہت زیادہ پیسہ خرچ کرنا ایک بڑی تعداد اخلاقی سوالات اٹھاتا ہے- سچ تو یہ ہے کہ ہم رمضان کے روزے رکھنے یا نیک اعمال کو کرنے میں اتنی دلچسبی نہیں رکھتے جتنی ہم عید کی خریداری میں رکھتے ہیں- جس طرح ہم عید کا جشن منانے کی تیاری کرتے ہیں ایسا لگتا ہے کہ عید اس مقدس مہینے سے زیادہ اہم ہے جو کہ رحمتوں سے بھرا ہوا ہے
اصل میں، عید امتحان دینے کے بعد طالب علموں کے لئے ایک اسکول میں نتیجے کے دن کی طرح ہے- اگر طالب علم امتحان کے لئے تیاری سے زیادہ نتیجے کا دن منانے کی تیاری پر زیادہ وقت اور توجہ دیں - تو کیا وہ ایک بہتر انداز میں بڑے دن سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں؟ اسی طرح، جب مسلمان رمضان کے دوران تمام ممنوع چیزیں اور اعمال سے اجتناب کرتے ہیں تو عید رمضان کے بعد الله کی طرف سے مسلمانوں کے لئے ایک انعام ہے- ہمیں کس طرح عید کے موقع پر حقیقی خوشی اور اطمینان ملے گا جب ہم مقدس مہینے کو زیادہ سے زیادہ بہتر انداز میں گزارنے کے مقابلے میں انعام کا دن منانے کے لئے خریداری کو زیادہ ترجیح دیں گے؟
اس وقت پاکستان کو نہ صرف افراط زر اور بے روزگاری کی شکل میں اقتصادی بحران کا سامنا ہے بلکہ سیلاب، خشک سالی، دہشت گردی اور اب وزیرستان میں فوجی آپریشن کا بھی سامنا ہے- اس سب سے متاثر لوگوں کو ایک کے بعد ایک مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے- تو مجبور اور غریب طبقے کے لوگوں کی بگڑتی ہوئی صورت حال کو دیکھتے ہوۓ کیا یہ مناسب لگتا ہے، ہم اپنے مجبور ہم وطنوں کی مدد کرنے کے بجاۓ عید کی خریداری پر اتنا پیسہ خرچ کریں؟
اگر ہم عید کی خریداری کی رقم میں سے صرف نصف مستحق لوگوں کی مدد کرنے میں خرچ کریں گے، تو اس سے نہ صرف الله خوش ہوگا بلکہ ہمیں عید کی حقیقی خوشی کے ساتھ ہمیں اور مالدار بھی کرے گا- آمین