معاشرے سے برائیوں کے خاتمے کے لیے اجتماعی کوششوں کے ساتھ ہی انفرادی کوششوں کی بھی ضرورت ہے۔ کسی بھی غلط کام کو صحیح ثابت کرنے کے لیے یہ دلیل کافی نہیں ہے کہ سب لوگ ایسا ہی کر رہے ہیں۔ اگر ہر شخص یہ سوچ لے کہ اپنے اعمال کا وہ خود ذمہ دار ہے اور اسے اپنا حساب خود دینا ہے تو معاشرے سے برائیوں کا خاتمہ ممکن ہو سکتا ہے۔
ہم جس معاشرے میں رہتے ہیں اس سے برائیوں کا خاتمہ اتنا آسان نہیں ہے کیونکہ بعض برائیاں رچ بس گئ ہیں اور ان برائیوں کا خاتمہ کرنے کے لیے ہم سب کو مل کر کچھ کرنا ہو گا۔ سب سے پہلے تو ہمیں ایسے حکمرانوں کی ضرورت ہے جو قوم کو صحیح قانون اور درست انصاف فراہم کر سکیں تاکہ ایک اچھے معاشرے میں اچھی قوم بہتر ماحول تشکیل پال سکے۔ تمام افراد کو مساوی حقوق ملیں، تعلیم کا نظام بہترین ہو اور دینی احکامات کی پیروی کو نصب العین بنا لیا جائے۔ ہمارا دین ہی ایک مکمل نظام حیات ہے جس پر عمل کر کے معاشرے کو سدھارا جا سکتا ہے۔
معاشرے سے برائیوں کا خاتمہ سچائی، ایمانداری اور حسن سلوک کی مدد سے کیا جا سکتا ہے۔ دراصل برائی کے زہر سے پوری طرح بچنا نا ممکن ہے مگر انسان کی ہمت، عقل اور اللہ پر ایمان سے بڑھ کر اور کوئی چیز ایسی نہیں جو اس کی راہ میں حائل ہو سکے۔ جب معاشرے کا ہر فرد اپنی ذمہ داری کو احسن طریقے سے نبھائے، صرف اپنے آپ کو درست کر لے، دوسروں کے لیے دل میں احترام اور محبت کے جذبات رکھے تو تبدیلی آ سکتی ہے۔ جب ساری انفرادی اچھائیاں اور مثبت سوچیں اجتماعی صورت اختیار کر جائیں گی تو برائیوں سے پاک معاشرہ جنم لے گا جو آسودہ اور خوشحال ہو گا۔