١٩٤٥ تا ٤٦ کے انتخابات اور مسلم لیگ

Posted on at


برطانوی انتخابات  کے بعد وائسرا تے ہند لارڈ ڈویول  نے ہندوستان   میں بھی انتخابات کا ا علان کر دیا . دسمبر ١٩٤٥ میں مرکزی اسمبلی کے لیے انتخابات منعقدہ کیا . جس میں ہندوستان کی تمام سیاسی جماتوں نے حصہ لیا اس انتخابات میں ہندوستان کی بارے سیاسی جماعت (مسلم لیگ اور کانگریس ) نے بھرپور انداز میں  حصہ لیا  .. لیکن بر صغیر  کی تقسیم پر دونوں  جماعتوں کا موقف میں تضاد تھا . کانگریس نے یہ انتخابات متحدہ ہندوستان اور مسلم لیگ نے تقسیم ہند کے نام پر لڑا .الیکشن کے دوران  قائداعظم  اور مسلم لیگ نے  بھرپور انداز میں مسمانوں  کو مخاطب ہوکر کہا کہ  اگر  وہ ہندوستان  میں مسمانوں کا مستقبل  مخفوظ  دیکھنا چاھتے ہے تو  ان کو پاکستان کے مطا لبے پر مسلم لیگ کا ساتھ    دینا چاہیے . بصورت  وہ کانگریس کی غلامی میں چلے جاۓ گے .

                                                    

             انتخابات کے نتا یج  آ ے  تو مرکزی اسمبلی  کی  تمام مسلم نشستیں مسلم  لیگ نے جیت لی .کانگریسی مسلمان امیدواروں کی ضمانتیں کی ضبط  ہوگی مرکزی اسمبلی میں مسمانوں کی ١٠٠ میں سے  ٣٠ نشستیں تھی جو تمام کی تمام  مسلم لیگ کی جیتی .اس بعد ١٩٤٦ کے اوائل میں ١١ صوبائی اسمبلیوں  کے انتخابات ہوئی جس میںمسمانوں کے لیے  ٤٩٢ نشستیں  مخصوص  تھیں . مسلم لیگ  نے ان میں سے ٤٥٤  نشستیں  حاصل کی اور اس طرح  مسلم لیگ  کی صوبائی اسمبلیوں کی  نشستیں  %٩٢  فیصد  رہا . صوبہ سرحد (خیبر پختوںخوا ) کے علاوہ تمام صوبوں میں مسلم لیگ نے اکثریت حاصل کی یوں مسلم  نشستیں  کے لیے کانگریس کی نامزد امیدواروں   کو ہار  ملی اور بعض  حلقوں میں کانگریسی مسلمان امیدواروں کی ضمانتیں کی ضبط  ہوگی

                                                       

یہ انتخابات ہندوستان کی تاریخ کے سب اہم انتخابات تھے . ان کے نتیجے میں مسلم لیگ  جو کہ ١٩٣٧ کے  انتخابات  میں بری طرح شکست کا سامنا ہوا لیکن اس بار وہ ایک کامیاب جماعت بن  کر ابھری . ان انتخابات نے قائد اعظم    کے اس دعوے کو جو وہ  ایک عشرے  کر  رہے تھے  سچ کر دکھا کہ  مسلم لیگ ہی مسلمانوں کی  واحد نمائندہ جماعت ہے . اس طرح  ان انتخابات نے یہ بات ثابت کی کہ ہندوستان کے مسَلے کا واحد حل پاکستان کے مطالبے کو ماننا ہے . انہی انتخابات کے نتیجے  میں کانگریسی لیڈر تقسیم ہند کے مطالبے اور مسلم لیگ کی نمائندہ حیثیت  کو ماننے پر مجبور ہوۓ

                                               



About the author

160