ہلتر گلگت

Posted on at


ہلتر گلگت

اللہ نے اپنی یہ کائنا ت بڑی خوبصورت بنائی ہے اور اس میں سارا حُسن سموکے رکھ دیا ہے  فطرت کی یہ خوبصورتی  کچھ ظاہر ہے اور کچھ مخفی  اور انسان کی آنکھ اس خوبصورتی کی کھوج میں لگی رہتی ہے ۔خوبصورتی تو ہر جگہ موجود ہے پر  یہ آپ پہ منحصر ہے کہ آپ یہ خوبصورتی دیکھ پاتے ہیں یا نہیں ۔ چناچہ قدرت  کی اس حسین کائنات  کی خوبصورتی  کو پانے کے لئے   گلگت سے بیس کلومیٹر  دور  دس ہزار فٹ  کی بلندی  پر  فطرت کے حسین  ترین نظاروں  سے لطف  اٹھانے کا سوچا اور  اس کے لئے تیاری شروع کر دی ۔ اس سفر میں دال چوریٹی تک دریائے گلگت آپ کی نظروں کے سامنے  ہوتا ہے ،جب ہم گھر سے نکلے تھے  اس وقت صبح کے  سات بج چکے تھے  پروگرام  یہ  طے تھا کہ  فجر کے فوراً بعد روانگی ہو لیکن ایسا ممکن نہ ہو سکا ۔ایک ساتھی کے کچھ ایسے  تقاضے   پیش آئے کہ  ہمارا یہ سفر پونے نو بجے ہی شروع ہو سکا۔۔فجر نماز کے بعد سفر شروع کرنے کا مقصد یہ تھا کہ  کہ دھوپ کی شدت سے بچا جا سکے  اب چونکہ ایسا ممکن نہ ہو سکا  جس کے باعث  وہی ہوا جس کا ڈر تھا ۔ایک تو  چڑھائی  چڑھنا اور اوپر سے دھوپ  آپ خود اندازہ لگا سکتے ہیں کہ  کہ ایسے میں  چڑھائی کا پیدل سفر کتنا دشوار ہوتا ہے ۔ہینزل گائوں تک آپ گلگت شندور  پکے روڈ کا لطف اٹھا سکتے ہیں ۔یہاں سے دو راستے ہلتر کی طرف جاتے ہیں  ایک راستہ جاگیر بسین اور ہینزل کی حدود سے اور دوسرا  ہینزل بربوچ  سے۔بربوچ سے ہلتر کی طرف  جو راستہ  ہے وہ نسبتاً دوسرے راستے سے دشوار اور تنگ گھاٹی والا ہے۔جبکہ دوسرا راستہ  بھی اتنا آسان نہیں پر ذرا نظارے والا ہے۔چونکہ ہم بطور سیلانی ہلتر کی طرف رواں تھے اس لئے ہم نے فیصلہ کیا کہ نظارے والا راستہ  اختیار کیا جائے  اور بربوچ  ہینزل کے راستے واپسی ہو ۔۔جی ہاں ہمارا سفر ہو چکا تھا  اب ہم اس راہ پر چل پڑے جہاں ہمواری کا دور دور  تک نشاں نہیں ہوتا ہے  اور نہ ہی  ان راہوں میں اس کا سوچا جا سکتا ہے ۔ زیگ زیگ پہاڑی راستے  اور یہ زگ زیگ کیسے ہوتے ہیں  پہاڑی علاقوں میں سفر کرنے والے اس کو بخوبی سمجھتے ہیں  اگر آپ گاڑی میں سفر کر رہے ہوتے ہیں تو  کبھی کبھار ایسے مقام بھی آجاتے ہیں  کہ  گاڑی ہر منٹ بعد کبھی ادھر اور کبھی اھر  اور انسان  کا سر گھوم کے رہ جاتا ہے ۔لیکن یہاں سر گھومنے والی بات نہیں تھی  بلکہ یہاں پہاڑ پر چڑھتے  ہوئے ان زگ زیگ راہوں میں سانس پھول اور ٹانگیں گھوم جاتی ہیں ۔۔دال چوریٹی کے پاس پہنچے تو اندازہ ہوا کہ  اب ہم کافی بلندی پر ہیں  یہی کوئی ہزار میٹر یا اس  تھوڑا کم یا زیادہ ۔۔ایک مرحلے میں میرے ساتھی  تاج میر نے بتایا کہ ابھی  آگے چار ہزار میٹر  اور اونچائی چڑھنا ہے ۔ اس جگہ ہم نے تھوڑا دم لیا  اور اپنے  بیگوں کی جامعہ تلاشی لینی شروع کر دی اور ہمارے ہاتھ  کچھ فروٹس لگے  جن کو ہم نے ہاتھوں میں دبوچ لئے ۔۔اب ان کے ساتھ جو سلوک کرنا تھا  آپ خود  دانا ہیں  اندازہ لگائیں  ہم ذرا فروٹس  سے کچھ پوچھ گھچ  شروع کردیں

تھوڑی دیر دم لینے اور پھل سے شکم کو بہلا کر اپنے سفر کا دوبارہ آغاز کیا۔فیروز صاحب بڑے دیندار آدمی وہ ہمیں اسلامی معلومات کے ساتھ دال چوریٹی اور ٹیمر گائوں کے متعلق بھی معلومات فراہم کر رہے تھے۔ہلتر اور کارگاہ گلگت والوں کی چراگاہئیں اور اینھن مہیا کرنے کے ذرائع ہیں اور ابھی تک لوگ اس سے استفادہ حاصل کر رہے ہیں ۔ہمارا موضوع بھی یہی ایندھن تھا اب اس ایندھن کو پورا کرنے کے لئے ان خوبصورت جنگلوں کا کیا حال بنا ہے  وہ ایک الگ کہانی ہے جس کا ذکر آگے جا کر آئیگا۔مجھے یاد پڑتا ہے کہ جب میں سکول میں تھا تو میں گلگت بازار میں لکڑی سے لدھے گدھوں کو اکثر دیکھا کرتا تھا اور جو لوگ اس کام سے منسلک تھے انہیں جُکو ٹھکیدار (لکڑی کے ٹھکیدار)  کہا جاتا تھا.یہ ستر کی دھائی کی بات ہے  اور آج اللہ کا کتنا کرم ہے کہ  لوگ کھاتے پیتے کہلاتے ہیں ۔یہ اللہ کی دین ہے جسے چاہئے چھپر پھاڑ کے دے۔چلتے چلتے فیروز نے ایک اور بات بھی بتائی کہ  اس راستے میں راستہ کیا ہے پُل صراط کہا جائے تو مناسب ہوگا اور اسی پُل صعاط میں ہزاروں گدھوں نےانسانی خدمت بجا لاتے ہوئے اپنی جانوں کو اسی انسان پہ نچھاور کیا جو اپنے آپ کو اشرف المخلوقات کہلاتا ہے لیکن کام ایسے کرتا ہے گدھے بھی اس سے دور رہنے لگے ہیں  وہ اس لئے کہ اب یہ انسان خود ایک دوسرے کو گدھا کہتے ہیں ایسے میں ان گدھوں نے  سوچا ہوگا کہ  اب یہ خود گدھے ہیں تو  ہماری کیا ضرورت ہے ۔۔باتوں باتوں میں  وہ پُل صراط  بھی آہی گئی جہاں ہزاروں گدھے لقمہ گھاٹی بن گئے تھے۔اس جگہ کا نام دمدروش پچ ہے ۔یہاںپہنچے تو تھوڑا سا خوف طاری ہوا ایک تو پگڈنڈی تنگ اور دوسری ہزاروں فُٹ نیچے تنگ گھاٹی  اف میرے خدا کیسے ان گدھوں کو لکڑی سمیت کراس کیا جاتا تھا اب توماشااللہ یہ تنگ پگڈنڈی کچھ بہتر ہے بحرالحال ہم نے یہ پگڈنڈی پار کر لی یہ تقریباً تین سو سے چار سو میٹر پر مشرمل ہے  اگر حکومت  اس حصے کو تھوڑا چوڑا کرے تو لوگوں اور چوپائوں کے لئے گزرنے میں آسانی ہو اور راستہ بنانا خلق خدا کے لئے بڑا ثواب کا کام بھی ہے۔

 

ابا

اب جو  آگے آنے والی تھی اسے یہاں کے لوگ ٹیمر کے نام سے جانتے ہیں ۔یہ گلگت اور ہلتر کے درمیان واحد گائوں ہے جہاں گجرات لوگ جنگل میں منگل ڈالے ہوئے ہیں ۔جب ہم یہاں پہنچے تو پتہ چلا کہ اتنے کم فاصلے پر بھی موسموں کا اتنا تغیئر گلگت میں درختوں کی کونپلوں سے ثمرات نمودار ہورہے تھے اور ٹیمر میں کونپلیں ابھی پھوٹ رہی تھیں یہ انیس بیس کا فرق نہیں بلکہ یوں کہیں کہ گلگت میں اپریل اور یہاں  فروری کا کا موسم اسی سے آپ بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ بالائی علاقوں میں موسموں کے تیور کس قسم کے ہوتے ہیں  اس لئے تو سیانے  کہہ گئے ہیں کہ سفر کے دوران اپنا کھانا اور لباس  اس نیت سے کبھی نہ چھوڑیں کہ بس اب ان کی ضرورت باقی نہیں رہی۔ٹیمر کی یہ عارضی آبادی بھی اکتوبر کے آخر تک اس گائوں کو رونق بخشتی ہے اس کے بعد پھر اگلے مارچ تک یہ ایک ویرانے میں تبدیل ہوتی ہے ۔ٹیمر میں ہم نے گلیشئر کے ٹھنڈے پانی سے اپنے آپ کو سیراب کیا ایک عجیب مٹھاس کا احساس ہوا۔پانی حلق سے اتارنے   اب آگہوئے  جب اس پانی کو گائوں تک پہنچانے کا انداز دیکھا تو ذہن جُئے شیر کی طرف گھوم گیا جی ہاں فرہاد جو شرین کا عاشق تھا اور خسرو پرویز رقیب پہاڑ سے نہر کھودنے چلا تھا لیکن شرین کی موت کی جھوٹی خبر سن کر تیشے سے سر مار کر مر گیا تھا۔لیکن یہاں جن فرہادوں نے اس نہر کو ان پہاڑوں سے نکالی ہے انہیں اپنی زمینوں سے عشق تھا اور انہوں نے تیشہ اپنے سر پر نہیں بلکہ ان چٹانوں پر برسائے اور اپنی  زمینوں کی آبیاری کرنے کامیاب ہوئے یہاں تو بس یہ تشبیہ صرف ان جانبازوں کی کوہ کنی کے زمرے میں آئی ہے۔اس جوئے شیر کے پاس تھوڑا سستانے کے بعد ہلتر کی جانب چل پڑے 

 

 

 

       



About the author

160