عقل و عشق کا حسین امتزاج

Posted on at


عقل و عشق کا حسین امتزاج


ہر انسان کے اندر دو جوہر بہت نمایاں ہوتے ہیں۔ عقل اور عشق۔ یہ دونوں جوہر انسانی الگ الگ وظائف و اعمال رکھتے ہیں اور ان کے بغیر زندگی کی گاڑی نہیں چلتی۔ عقل کا وظیفہ یہ ہے کہ وہ معاملات زندگی کو سمجھ کر ایک صحیح نتیجے پر پہنچنے میں مدد دیتی ہے اور خطرات و مہالک سے بچاتی ہے اور عشق کا وظیفہ یہ ہے کہ اقدار عالیہ کے حصول کی لگن پیدا کرتا ہےاور انہیں حاصل کرنے کے لئے ابھارتا ہے۔ عقل یہ بتاتی ہے کہ فلاں کام نیکہ کا ہے اور یہ نیکی ضرور کرنی چاہیے یا فلاں بات بہت بری ہے اور اس برائی کو نہیں کرنا چاہیے۔ گویا عقل ہی کسی بات کے اچھے یا برا ہونے کا فیصلہ کرتی ہے۔ لیکن اچھے کام کے کرنے یا بری بات کے ترک کرنے کی توفیق بخشنا عقل کا کام نہیں، یہ عشق کا وظیفہ ہے۔ ایک شرابی اچھی طرح عقل سے سمجھ لیتا ہے کہ شراب نوشی بری چیز ہے اور اسے ترک کردینا چاہیے اور اس کےباوجود شراب نہیں چھوڑتا۔ اسے ترک کرنے والی شے عقل نہیں ہوتی بلکہ ایک دوسرا جذبہ ہوتا ہے جسے عشق کہتے ہیں ۔ یہی جذبہ کسی برائی سے نفرت پانے کی لگن پیدا کردیتا ہے اور یہ جذبہ اتنا شدید ہوتا ہے کہ عقل‘‘ محو تماشائے لب بام’’ ہی رہتی ہے اور عشق‘‘بے خطر آتش نمرود’’ میں کود پڑتا ہے۔ عقل و عشق دونوں کا وجود زندگی کی گاڑی کے دو پہیے ہیں جو اسے کسی منزل کی طرف رواں دواں لے جاتے ہیں۔ آپ اپنے گھر کا بجٹ بناتے ہیں اپنی عقل سے لیکن اپنے گھر والوں سے جو محبت کرتے ہیں کیا وہ کسی عقل کا تقاضا ہوتا ہے؟ نہیں۔ وہ ایک دوسرا جذبہ ہے جس میں عقل کو دخل نہیں ہوتا ۔ یہ صرف عشق کی کارفرمائی ہے۔ لیکن ہوشیار رہیے، ان دونوں کے نقص سے عقل حیلہ گر ہوتی ہے۔ بہانہ جو ہوتی ہے۔ انسان کو ہر جائز و ناجائز خواہش کو حق بجانب ثابت کرنے(Justification) کے لئے دلائل تلاش کر لیتی ہے۔ نیکی سے بچنے اور برائی پر عمل کرنے کے لئے وجہ جواز ڈھونڈ نکالنا عقل کا ایک ادنی کرشمہ ہوتا ہے۔ ایسی ہی عقل کو زیرکی کہتے ہیں اور مولانا رومی اسی زیرکی کے بارے میں کہتے ہیں؎ می شناسد ہر کہ از سر محرم ست زیرکی زابلیس و عشق از آدم است اس طرح عشق میں یہ عیب ہے کہ یہ اندھا ہوتا ہے ۔ یہ نہ موقع دیکھے نہ وقت۔ بس چل پڑتا ہے، خواہ اس سے کتنا ہی نقصان ہو۔ یہ دونوں مل کر ہی ایک دوسرے کے نقص و کمی کو دور کرکے تکمیل کی منزل کی طرف لے جاتے ہیں۔ ہر ایک دوسرے کے بغیر لنگڑا ہوتا ہے۔ یوں سمجھیے عشق ایک سرپٹ دوڑنے والا گھوڑا ہے اور عقل اس کی لگام۔ صرف مہمیز عشق ہو تو گھوڑا کسی ہلاکت کے گھڑے میں جاگرے اور صرف عقلی لگام کھنچی رہے تو گھوڑا چل ہی نہ سکے گا۔ حسن و خیر صرف اس میں ہے کہ ان دونوں میں توازن و تناسب قائم رہے، یہ دونوں ایک دوسرے کے مددگارو پشت پناہ ہیں۔ جہاں عقل گریز کرے وہاں عشق اسے حرکت میں لاہے اور جہاں عشق سرپٹ دوڑے وہاں عقل لگام دے۔ یہ دونوں صحیح توازن و تناسب پر قائم رہیں گے تو ہی صراط مستقیم ہوگی اور اسی میں زندگی کا جمال ہوگاَ بہترین امت صحابہ رسول تھے( ﷺ) ہر فرد عقل و عشق کا حسین مظہر تھا۔ لیکن سچی بات یہ ہے کہ بجز صدیق اکبر ابوبکر بن ابی قحافہ (رضی اللہ عنہما) کے کسی میں عقل و عشق کا وہ متوازن امتزاج نہ تھا جو آئیڈیل اور اسوۃ تامہ کا مقام رکھتا ہو۔ سب کے سب ہی دونوں کمال رکھتے تھے۔ لیکن زندگی میں بہتیرے مواقع ایسے آئے کہ جہاں ان کے عشق پر عقل یا عقل پر عشق غالب آ گیا بلکہ بعض صحابہ میں تو گویا دوامی طور پر ایک عنصر غالب رہا۔ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ میں بھرپور عشق موجود تھا اور اس سے انکار ممکن نہیں لیکن یہ ماننا پڑے گا کہ عقل غالب رہتی تھی اور ان کے صاحبزاے سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ میں نمایاں طور پر عشق غالب تھا۔ سیدنا علیؓ، سیدنا عثمانؓ، سیدنا بلال ؓ پر بھی عشق ہی غالب تھا۔ خالد بن ولیدؓ، معاویہ بن ابی سفیانؓ، عباس ؓبن عبد المطلب، عمر وؓبن العاص پر عقل غالب تھی۔ ان حضرات میں کوئی مغلوب العشق عقل سے یا کوی مغلوب العقل عشق سے خالی نہ تھا(نعوذ باللہ) مگر زندگی میں بالعموم کوئی ایک عنصر غالب نظر آتا ہے۔ مستثنی ذات صرف جناب صدیقؓ کی ہے۔ کوئی مرحلہ زندگی میں ایسا تو نہیں ملتا جہاں عشق کا موقع ہو اور وہاں عقل غالب آگئی ہو یا عقل کے موقع پر عشق نے غلبہ پا لیا ہو۔ جناب ابوبکرؓ کیپوری تاریخ پڑھ جائیے آپ کو ایسا محسوس ہوگا کہ عقل و عشق دونوں ساتھ ساتھ متوازی خطوط پر اس طرح دوڑ رہے ہیں کہ کوئی ایک عنصر آگے یا پیچھے نہیں ہوتا بلکہ دونوں دوڑنے والے ایک دوسرے کی نسبت سے ساکن نظر آتے ہیں ۔ جو فیصلہ عشق کا ہوتا ہے وہی عقل کا ہوتا ہے اور جو فیصلہ عقل دیتی ہے وہی عشق بھی دیتا ہے۔ کوئی سخت ست سخت تنقید کرنے والا مؤرخ بھی ایسا نہیں ملے گا کو صدیق ؓ کے کسی اقدام یا کسی فیصلے کو عقل و سیاست کی غلطی بتا سکے اور اس طرح کوئی غٖالی سے غالی صوفی ایسا نظر نہ آئے گا جو آپ کی حرکت و سکون کو عشق کے خلاف کہہ سکے۔ ذرا ملاحظہ فرمائیے ، صلح حدیبیہ ہو رہی ہے جس میں ایک شرط ایسی رکھی گئی ہے جو کسی مسلمان کو گوارہ نہیں۔ شرط یہ ہے کہ مکے سے بھاگ کر جو مسلمان جائے وہ واپس کر دیا جائے، لیکن جو مسلمان مدینے سے مکہ جائے وہ واپس نہ کیا جائے۔ ابھی صلح نامے پر دستخط بھی نہیں ہوئے کہ حضرت ابو جندل قید سے بھاگ کر حدیبیہ پہنچے۔ فریاد کرکے وہ اپنے داغ ہائے زخم دکھاتے ہیں۔ اور اپنی مظلومیت کی داستان بیان کرتے ہیں۔ صحابہ تڑپ اٹھتے ہیں مگر کچھ حیل و حجت کے بعد وہ پھر موت کہ منہ میں مکے واپس کر دیے جاتے ہیں اور ایمان و اطاعت کا مجسمہ بے تکلف واپس کر دئیے جاتے ہیں اور یہ ایمان و اطاعت کا مجسمہ بے تکلف واپس چلا جاتا ہے۔ معاہدے کی دفعہ ہی کیا کم دل خراش تھی ، سیدنا ابو جندل کی واپسی نے اور بھی آگ پر تیل کا کام کیا۔ سارے مسلمان انتہائی شکستہ دل ہو گئے تھے کیونکہ چھ میل کے فاصلے سے عمرہ ادا کیے بغیر جا رہے تھے۔ سیدنا عمر تو آپے سے باہر ہو گئے اور حضور انور ﷺ سے کچھ اس انداز میں مکالمہ کرتے رہے جو ان کی عام روش کے خلاف تھا۔ یہ ایک دو نہ تھے چودہ سو مہاجرین وا نصارر کا جم غفیر تھا جو اپنا سر ہتھیلیوں پر لے کہ آیا تھا۔ ایک اشارے پر پورا مکہ خاکستر ہو سکتا تھا۔ جوابہؤی کاروائی نہ ہونے سے اہل اسلام اور بھی آزردہ خاطر ہو رہے تھے۔



About the author

Ihtasham-Zahid

I am student of Electronics Engineering in International Islamic University Islamabad.

Subscribe 0
160