ادب اور زندگی پارٹ ۱

Posted on at


ادب زندگی کا اہینہ ھے ۔ ادب کے مسائل کو زندگی کے مسائل سے جدا نہیں کیا جا سکتا ۔ اس کا مقصد یہ ھے کہ یہ زمان و مکان کی حد بندیوں سے بالا تر رہتے ہوئے اپنے گرد و پیش کی عکاسی کرے تا کہ اس کے حسن سے اگاہ ہو کر انسانیت ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکے ۔ ادیب کا فرض ھے کہ ماضی کے عیوب سے حال کو باخبر رکھے اور حال کی تصویریں یوں کیھنچے کہ اس میں مستقبل کے ارشادات پہناں ہو۔
ادیب کے متعلق کہا گیا ھے کہ وہ زندگی کی عبارت کی مختلف تحریریں صفحہ قرطاس پر بکھیرے ۔ دنیا میں جتنے بھی ادیب گزرے ھیں ان کی مثال سامنے ھیں انہوں نے مشاہدہ قدرت اور مطالعہ زندگی کو اپنا موضوع بنا کر راہ منزل کی طرف گامزن کیا ۔ ہر ادیب یہ کوشش کرتا ھے کہ زندگی کے اچھے برے، مطلوب و نامطلوب ، پہلو کو اھاطہ تقریر میں لائے۔


کوئی بھی ادیب زندگی کے دامن چھڑا کر ایک لفض بھی نہیں لکھ سکتا ۔ وہ اپنے اردگرد و پیش سے بھی بہر طور پر متاثر ہوتا رہتا ھے ۔ وہ جس زمانے میں پرورش پا تا اور جن لوگوں کے ساتھ رہتا ھے وہ جن خیالات کا حامل ہوتا ھے انہی کو اپنے جزبات کا محرکل پاتا ھے ۔ اس لئے کسی ادیب کی زندگی کو سمجھنے کے لئے اس فضا کا سمجھنا ضروری ہوتا ھے جب تک اس زمانے کی زندگی نہ سمجھی نہ جائے ادیب کے جزبات کی واحساسات کا سمجھنا مشکل ھے کیونکہ ادیب اپنی نہیں اپنے اردگرد کی فضا کی عکاسی کرتا ھے ۔ اجتماعی انسان اس کی زبان سے بولتا ھے اس لئے کسی زمانے کے ادب کو بغور مطالعہ کرنا ہو تو اس کے لئے ضروری ھے کہ اس زمانے کے حالات کو بغور مطالعہ کیا جائے کیونکہ وہ مخصوص جزبات ان مخصوص حالات ہی نے پیدا کئے تھے۔


ادب زندگی کا ترجمان ھے ،وہ انسان کے خیالات و جزبات اور احساسات کو مکتلف تحریروں سے واضح کرتا ھے انسان کی خوشی اور انسباط اور مایوسی و بےبسی کا اظہار کرتا ھے دنیا میں اج تک جتنا بھی سرمایہ ادب ہمارے سامنے ھے وہ انسان کی قلبی حالت،جزبے کی شہادت اور قوت ارادی یا جنسی وردات کا اظہار سے پرھے ہر پہلو کو پوری اب و تاب کے ساتھ پیش کیا گیا ھے اس لئے اس حقیقت سے انکار ممکن ھے کہ زندگی اور ادب کا چولی دامن کا ساتھ ھے جوں جوں زندگی اپنی منازل طے کرتی ھے ادب بھی اپنی منازل طے کرتا ھے زندگی اور ادب کے قافلے برابر گامزن رہتے ھیں جس طرھ زندگی عروج و ارتقا حاصل کرتی ھے ادب بھی اعلی وعرفہ مقام پر پہنچ جاتا ھے ۔۔۔

 


ادب برائے ادب کا نظریہ بےلکل بے معنی ھے حقیقت یہ ھے کہ ادیب زندگی سے متاثر ہو کر لکھتا ھے زندگی سے ہٹ کر ادیب اپنی منزل تلاش نہیں کر سکتا ۔ زندگی کی روانی اسے اپنے ساتھ لے کر چلنے پر مجبور کرتی ھے ۔ ایک انسان اور ادیب کے فرائض و مقاصد یکساں اور مشترک ھے ۔ فرق صرف اتنا ھے کہ ایک اپنے ماحول کی ترجمانی کرتا ھے اور دوسرا اس سے متاثر ھے ۔ لہزا ادب زندگی کا ایک شعبہ ھے اور اپنے ماحول کا ترجمان ھے زندگی اور ادب کے مقاصد کے متعلق حکیم گورگی نے کہا تھا ؛کہ ادیب انسانیت کا نقاد ھے ،وہ اس کی کج روی کو ظاہر کرتا ھے اور اس کی خامیوں کو بے نقاب کرتا ھے اور اس کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ھے کہ انسان کی حیات مستعار کو دائم و قائم بنائے۔ ادب ادمی کو بتانا چاہتا ھے کہ وہ حالات کا غلام نہیں بلکہ حالات اس کے غلام ھیں ۔ وہ اپ اپنی زندگی کا مالک ھے ، اور اسے جس روش پر چاہے لے جا سکتا ھے۔؛

 



About the author

amjad-riaz

you can ask me

Subscribe 0
160