وقت اور زمانے کے ساتھ ساتھ معاشرہ ارتقائی مراحل اور مدارج سے ہو کر گزرتا ہے جس کے سبب تبدیلیاں رونما ہوتی رہتی ہیں لیکن فورا ان تبدیلیوں کو قبول نہیں کیا جاتا وقت کے ساتھ جب ان کے خدوخال واضح ہونا شروع ہوجاتا ہیں تو یہ اس ماحول جن مین معاشرے کے افراد رہ رہےہوں قبولیت بخشتے رہتے ہیں یہ تبدیلیاں رہن سہن، بودوباش، تہذیب و تمدن اور معاشرتی اقدار کی شکل میں سامنے آتی ہے ہم جس خطے کے باسی ہین اسکواگر قدامت پسندی کے پلڑے میں رکھا جائے تو بے جا نہ ہو گا کیونکہ ہم فورا کسی چیز کا اثر قبول کرنے سے ہچکچاہٹ کا شکار نظر آتے ہیں
موجودہ وقت میں یہ ماننا پڑے گا کہ دنیا اب جدید ٹیکنالوجی کی بدولت سمت کر رہ گئی ہیں جس میں سرکردہ کردار سوشل میڈیا کا نظر آتا ہےلہزا معاشرتی تبدیلیوں کا اثر اب سپیڈ لینے لگا ہے اور نوجواں لڑکے اور لڑکیاں اسکے سحر مین بہت جلد گرفتار ہو رہے ہیں پاکستان میں نئی نسل اپنی خواھشات اور حسرتوں کی تسکین کے لیے مقدور بھر کوششون کی رسیا دکھائی دیتی ہے ان حسرتوں کو پانے سے قبل وہ اپنے اذہان میں تصورات وخیالات کا ایک جم غفیر امڈ آنے دیتے ہیں جسے ہم عرف عام میں آںٓیڈیل ازم کہہ سکتے ہیں اور یہاں یہ مبالغہ آرائی نہ ہوگی کہ لڑکوں کی نسبت لڑکیاں اسی کا جلد شکار ہوجاتیں ہیں
موجودہ دور کی فلمیں ،ڈرامے اور مارننگ شو اس چنگاری کو بھڑکانے میں کلیدی کردار ادا کر رہےہیں متوسط طبقے کی لڑکیاں اس سے اثر لیتی ہیں تعلیم یافتہ لڑکیاں ایک سہانے مستقبل کا خواب اپنی آنکھوں میں سجائے ایسے شریک حیات کی منتظر رہتی ہیں جو ان کے خوابوں کو تعبیر دے سکے یعنی ایسا شخص جو گاڑی، گھر اور نت نئے فیشن کے حامل لباس فراہم کر سکے
زیادہ تر لڑکیاں جذباتی پن میں لڑکے کے نسل اور سیرت و کردار کو نظرانداز کرکے ایسے شخص کو اپنی خوابوں کا شہزادہ بنا لیتی ہیں جو ظاہری نمودونمائش کا نہ سرف رسیا ہو بلکہ خود کو بھی ایک متمول خاندان کا فرد ظاہے کرتا ہو اسطرح جزبات میں بہہ کر پسند کی شادی کرنے والوں کی ناکامی کی شرح ۶۰ فیصد ریکارڈ کی گئی ہیں
اس لیے سوچ سمجھ کرفیصلہ کرنا چاہیئے