بچوں کی نظم و تربیت کی تین اقسام

Posted on at


 

ایک بچے کو دوران بالیدگی تین قسم کی نظم و تربیت سے گزرنا پڑتا ہے پہلی اور سب سے اہم فطری نظم و تربیت ہے۔ جب ایک بچے کو ایک کام کرنا پڑتا ہے تو اگر  وہ اسے غلط طریقے سے کرے یا پھر صحیح طریقے پر نہ کر پا سکے تو اسے وہ نتیجہ نہیں ملتا جس کی اسے خواہش ہوتی ہے۔ اگر اسے ایک ڈبوں کا پہاڑ بنانا ہو اور وہ ایک ڈبے کو دوسرے ڈبہ پر سیدھا نہیں رکھتا یا پھر ان ڈبوں کو کسی ڈھلوان والی سطح پر رکھ کر پہاڑ بنانا چاہے تو پہاڑ بنانا ممکن نہیں ہوتا۔ یا پھر کیل گاڑھنے کےلیے اسکے سر پرصحیح ضرب نہیں لگاتا ظاہر ہے کیل سیدھی نہیں گڑھے گی یا پھر کوئی اور کام غلط طریقے سے کرتا ہے تو مطلوبہ نتیجہ اخذ ہونا ممکن نہیں ہوتا۔ لہذا فوری صحیح نتیجہ اخذ کرنے کے لیے ضروری ہے کہ وہ عملی کام کر کے اس کے حصول کو یقینی بنائے۔

 

  اسی ہدف کو نظر رکھتے ہوئے طلباء سے سکولوں میں دوران تدریس صرف زبانی کام پر انحصار نہیں کرنا پڑتا بلکہ عملی کام کو لازم قرار دیا جاتا ہے۔ عملی کام ایک اچھا مدرس ثابت ہوتا ہے۔ عملی کام کرنے سے نہ صرف اسے اپنی غلطی اور کوتاہی کا علم ہوتا ہے بلکہ صحیح راستے کو اپنانے کی تربیت بھی مل جاتی ہےجو وہ از خود سیکھتا ہے عملی اور بار بار کام کرنے کا سب سے اہم فائدہ یہ ہے کہ فطرت کا مدرس ذاتی پسند یا نا پسند کی خامیوں سے پاک ہوتا ہے بلکہ اس کا فیصلہ ہمیشہ غیر متعصبانہ  اور انصاف پر مبنی ہوتا ہے۔ فطری نتیجہ خیزی میں فطرت کی اپنی رائے یا اپنا فیصلہ نہیں ہوتا اور وہ اسلیے کہ نہ تو وہ کسی کی خوش آمد اور بہلاوے میں آتی اور نہ اس کی درگت کی جا سکتی ہے اور نہ ہی اسے دھوکہ دیا جا سکتا ہے۔ نہ تو اسے غصہ آتا ہے اور نہ ہی وہ مایوس ہوتی ہے نہ تو وہ کسی کی مدح سرائی کرتی ہے اور نہ ہی عیب جوئی نہ ہی ماضی کی غلطیوں کو یاد کرتی ہے اور نہ ہی حسدانہ رویہ رکھتی ہے بلکہ ہر لمحے ہر تجربہ نیا اور نئی سوچ کا متقاضی ہوتا ہے۔ بہ الفاظ دیگر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ فطری نظم وتربیت ہمیشہ سیدھا راستہ دکھاتی ہے۔

 

دوسری قسم سماجی اور ثقافتی نظم و تربیت ہے اور جسے لوگ حقیقتا اپناتے ہیں اور وہ اس لیے کہ فرد سماج کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا بچے جو سماج کا حصہ ہوتے ہیں وہ مختلف سمجھوتوں، رشتوں اور بندھنوں کو غیر شعوری طور پر اپنی شخصیت کا حصہ بنا لیتے ہیں۔ جو اس معاشرے میں مختلف رسوم و رواج ، عادات و اطوار کی پیداوار ہوتے ہیں۔ وہ ان رشتوں کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں اور اپنانا چاہتے ہیں وہ اپنے گردو پیش لوگوں کی حرکات و سکنات پر کڑی نظر رکھتے ہیں اور اس کی تقلید کرتے ہیں وہ صحیح راستے پر چلنے کی کوشش کرتے ہیں اور اگر وہ ایسا نہ کر پاتے تو انہیں یقین ہو جاتا ہے کہ وہ ایسا نہیں کر سکتے یہی وجہ ہے کہ بچے چرچ یا مسجد میں غیر پسندانہ حرکات و سکنات سے گریز کرتے ہیں کیوں کہ بڑے ایسے ماحول میں غیر پسندانہ رویہ سے گریز کرتے ہیں اور کوئی پر اسرار دینی رسم جاری ہو تو وہ بچے جو کسی محفل موسیقی میں موجود ہوں شائد ہی غیر پسندیدہ رویے کا مظاہرہ کرتے ہیں اگرچہ وہ تھوڑا سا بے چین ضرور ہوتے ہیں یا پھر انہیں نیند کا جھونکا بھی آجاتا ہےچونکہ ایسی محفلوں میں بڑے خاموشی کا مظاہرہ کرتے ہیں لہذٓا بچے بھی خاموش رہنے کی شعوری کوشش کرتے ہیں کیونکہ بچے نقال ہوتے ہیں بچے جو ایسے ماحول میں پلتے ہیں جہاں بڑے مہذب اور شائستہ ہوتے ہیں تو وہ بھی سائستگی کا مظاہرہ کرتے ہیں اس کے بر عکس پر متمدن اور نا سائستہ ماحول کے بچے نا سائستگی اور غیر مہذبانہ رویہ کا مظاہرہ کرتے ہیں۔

 

تیسری قسم نظم و ضبط کی وہ ہے جسے بذور شمشیر لاگوں کیا جاتا ہے جس کا تقریبا ہر بچے کو اپنی زندگی میں سامنا کرنا پڑتا ہے ایک ایسا ماحول جس میں بچے کو کسی خطرے کا سامنا کرنا پڑے یا پھر بچہ کسی کے لیے خطرہ بنے وہاں بڑے لا تعلقی کی راہ چھوڑ کر چھوٹوں کو اس نظم و ضبط کو اپنانے پر مجبور کرتے ہیں ہم اس بات کی ہر گز اجازت نہیں دیں گے کہ بچہ کھلی سڑک میں کھیلے کودے یا پھر گرم ہانڈی جو چولے پر پڑی ہو اسے چھوئے یا پھر الماری میں پڑی دوا کی گولیاں کھا لے اور اگر بچہ ایسا کرنے کی کوشش کرے گا تو اسے سزا دی جائے گی۔ ایسی صورت میں بچے کا دو خطرات سے سامنا ہوتا ہے۔ ایک وہ بڑا خطرہ ہوتا ہے جو ان کی سمجھ سے بالا تر ہے لیکن بڑے سمجھتے ہیں کہ وہ بڑا خطرہ ہے دوسرا وہ جو بچے کی سمجھ میں آتا ہے اور وہ سزا کا خوف ہے ان دو خطرات کے درمیان بڑے حائل ہوتے ہیں۔ جو بچوں کو بڑے خطرے کی دھمکی سے بچاؤ کے لیے بڑے خطرے کی دھمکی دیتے ہیں۔         بچہ چھوٹے خطرے کی دھمکی سے بچاؤ کے لیے بڑے خطرے سے دور رہنے کی کوشش کرتا ہے تا وقتیکہ اسے سمجھ آ جائے کہ بڑا خطرہ کیا ہے کیونکہ بچپن کے سٹیج میں یہ بات بچے کی سمجھ سے بالاتر ہے کہ کار کی ٹکر کا نتیجہ کیا ہو گا اسی لیے ہمیں بچوںکو غلط باتوں اور برے کاموں سے دور رکھنا چاہیے تاکہ وہ بڑا ہو کر ایک اچھا انسان بن سکے اور ملک کی ترقی میں ایک اہم کردار ادا کر سکے۔



About the author

Asmi-love

I am blogger at filmannex and i am very happy because it is a matter of pride for me that i am a part of filmannex.

Subscribe 0
160