خود کشی کا بڑھتا ہوا رجحان اور ہمارا معاشرہ

Posted on at



خودکشی - ایک ایسا لفظ ہے جو ایک صحتمند دماغ اور صحتمند جسم میں کپکپی طاری کر دیتا ہے. خودکشی کرتا کوئی ہے مگر سننے والے کو ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے یہ اس کے سامنے کی بات ہے. ہمارا ذھن اس شخص کی تکلیف کی طرف چلا جاتا ہے اور ہمیں اور جاننے کی جستجو ہوتی ہے. آخر لوگ خود کشی کیوں کرتے ہیں؟ اس کے محرکات کیا ہیں؟ یہ سوال ایسا ہے جس پر سائنس کافی ریسرچ کر چکی ہے مگر کون خود کشی کرتا ہے، یہ جواب آسان نہیں ہے. یہ بھی ایک بیماری کی طرف نشاندہی کرتی ہے. مگر عام طور پر خود کشی کرنے والا شخص ضرور کسی مصیبت میں ہوتا ہے اور جب وہ اس مصیبت سے جان نہیں چھڑا سکتا یا اس کا ذہن اور جسم نا امید ہو جائیں تو ایسی صورت میں خود کشی ہی اسے آخری راستہ نظر آتا ہے.

مگر ایک مسلمان ہونے کے ناطے ہمیں نا امید نہیں ہونا چاہیے بلکہ مصیبت پر مصیبت آ جائے تو تب بھی صبر کرنا چاہیے. اگر ہم اپنے ذہن میں ایک بات بیٹھا لیں کہ آخر کو یہ زندگی ختم ہونی ہی ہے تو پھر مصیبت سے کیا گھبرانا؟ چلیں، فرض کر لیں ہم ایسی صورتحال سے دوچار ہیں جس کا انجام ہی موت ہے، تو پھر صبر کرنا بہتر ہے نا کہ خود کو مار دینا. موت میں اور خودکشی میں فرق ہے. موت ہر ایک کو وقت پر آنی ہے مگر خودکشی کرنے والا الله تعالیٰ کی مشیت میں مداخلت کرتا ہے اسی لیے سزا بھی بھگتے گا.

ہمارے معاشرے میں شاید خودکشی کا رجحان غربت کی وجہ سے ہے جب ہم سنتے ہیں کہ فلاں باپ نے اپنے پانچ بچوں کو مارنے کے بعد خودکشی کر لی. اب اس میں سوچنے والی بات یہ ہے کہ اس باپ نے الله تعالیٰ کو رزاق نہیں مانا' اور صبر نہیں کیا ورنہ کیا پتا اگلے ہی دن اسے وہ کچھ مل جاتا جو اس کی طاقت سے بھی زیادہ ہوتا؟ یہی وہ رویہ ہے جسے اجاگر کرنے کی ضرورت ہے. مگر ایک نہایت افسوس کا مقام یہ ہے کہ کچھ لوگ محبوب کو نا پانے کے غم میں خودکشی کر لیتے ہیں. کاش یہ لوگ سمجھ سکیں کہ ایک پرایی لڑکی جس سے نکاح کے بغیر رشتہ ہی حرام ہے، اس کی خاطر خودکشی کرنا کہاں کی دانشمندی ہے؟ بات تو پھر وہی ہوئی جیسے علامہ اقبال فرما گے ہیں:

دونوں جہاں سے گے ہم - نہ ادھر کے رہے نہ ادھر کے رہے
نہ خدا ملا نہ وصال صنم - نہ ادھر کے رہے نہ ادھر کے رہے

یہ بات تو پکّی ہے کہ خودکشی کرنے والا اس دنیا میں بھی ذلیل اور آخرت میں بھی ذلیل ہو جاتا ہے. وہ ایک ایسی بات کی وجہ سے اپنی جان لیتا ہے جو اس کے اختیار میں ہوتی ہی نہیں. حالانکہ ہمیں معلوم ہے کہ اختیار سب کا سب صرف الله تعالیٰ کی ذات کا ہے جس میں کوئی دوسرا مداخلت نہیں کر سکتا. خودکشی کرنے والا صرف خود غرض ہوتا ہے، اسے دوسروں کی پرواہ نہیں ہوتی - وہ صرف اپنے من کو تسلی دینے کا کام کرتا ہے. اسے اپنے ماں' باپ' بہن' بھائی' بچوں' بیوی' رشتےداروں' اور دوستوں کی فکر نہیں ہوتی. یہ سب اس کے لیے ثانوی باتیں ہیں.

ہمارا دین اسلام تو امید کا دین ہے. اس دین میں ناامید شخص کی کوئی جگہ نہیں. جب ہم کلمہ لا الہٰ الا الله محمد رسول الله (صلی الله علیہ وسلّم) پڑھتے ہیں تو ہم اپنا سب کچھ اس کلمہ پر قربان کرنے کو تیار ہوتے ہیں اور عہد کرتے ہیں کہ نہ صرف دوسروں ا بلکہ خود ہماری اپنی جان بھی الله کی امانت ہے، ہمارے مال پر بھی الله کا حکم ہے. موت کی آرزو کرنا بھی حرام ہے اگر فتنے میں مبتلا ہونے کا ڈر نہ ہو.

انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا،تم میں سے کوئی شخص کسی تکلیف کی وجہ سے جو اسے پہنچے، موت کی آرزو ہرگز نہ کرے۔ اگر اس کو موت کی تمنا کرنا ہی ہے تو ان الفاظ میں کرے۔ اللھم احینی ما کانت الحیاۃ خیرا لی وتوفنی اذا کانت الوفاۃ خیرا لی،، اے اللہ! مجھے اس وقت تک زندہ رکھ جب تک زندگی میرے لیے بہتر ہے اور مجھے موت دے جبکہ میرے لیے بھتر ہو۔ فائدہ: اس حدیث میں موت کی آرزو کرنے سے روکا گیا ہے کیونکہ یہ آرزو اس بات کی غمازی کرتی ہے کہ آرزو کرنے والا اللہ تعالٰی کی قضاء وقدر پر راضی نہیں ہے، تاہم اگر یہ آرزو کرنا ضروری ہوجائے تو مذکورہ الفاظ میں دعا کی جائے، ((کسی فتنے میں مبتلا ہونے کے اندیشے سے موت کی آرزو کرنا جائز ہے۔))

بحیثیت مسلمان اور انسان ہونے کے ہمارا فرض ہے کہ دوسروں کی حتی المقدور مدد کریں، اور کچھ نہیں تو ان کا غم اور دکھ بانٹیں اور تسلی دیں اور ان کو بتائیں کہ یہ فانی دنیا ہے اور ہم نے آخر الله تعالیٰ کے پاس ہی جانا ہے. جیسے بھی ہو مالی مدد غریبوں کا حق ہے. الله تعالیٰ کا کتنا شکر ادا کریں کہ ہمیں کبھی فاقے نہیں کرنا پڑے مگر جو فاقہ کش ہیں ان کی مدد ہم پر لازم ہے. یقین کریں اور کچھ نہیں تو آپ کے تسلی کے دو لفظ بھی دوسروں کو خوشی دے سکتے ہیں.

Link (Reference): http://ur.wikipedia.org/wiki/%D9%81%D8%AA%D9%86%DB%81



About the author

BlogBuster

Hi there! My name is Asghar Khan and I reside in Denmark. Writing has been my passion since I was in high school and have written many short stories, poems and articles of various kinds. I am an avid reader of anything relating to language and literature and am always…

Subscribe 0
160