لفظ سائرن اور پمفلٹ کی کہانی ( لفظوں کی انوکھی دنیا کا سفر)

Posted on at


 

ہر لفظ کی اپنی ایک پہچان اور زندگی ہوتی ہے اوراس کی زندگی میں نشیب و فراز آتے ہیں ان لفظوں میں اپنا ہی ایک رنگ ہوتا ہے کچھ الفاظ اوپر سے روکھے ،کھوکھلے اور رسمی ہوتے ہیں اور بعض الفاظ کے پیچھے حیرت انگیز کہانیاں اور حقیقتیں چھپی ہوتیں ہیں ایسے الفاظ کے پیچھے چھپی ہوئی حقیقتوں کی تلاش اور ان کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کا ایک عجب لطف آتا ہے جیسے کسی دروازے کے سوراخ میں آنکھ لگا کر چوری چھپے کے نظارے کرنے میں آتا ہے اسی طرح الفاظ کی حقیقتیں معلوم کرنے کا اپنا ہی مزہ ہے

اب لفظ سائرن کو ہی لے لیں یہ ایک خشک اور غیر شاعرانہ سا لفظ ہے یہ آجکل صنعتی زندگی کا لفظ بن گیا ہے بڑے بڑے شہروں  میں فیکٹریوں کے لیے فیکٹری ایریاز ہوتے ہیں اور ان فکٹریوں سے سائرن کی آوازیں سننے کو ملتی ہیں انسانوں کی ایک بھیڑ سائرن کی آواز سے فیکٹری کی طرف جاتی ہے اور دوسری آواز سے اس بھیڑ کو باہر نکال دیتے ہیں (سائرن ) کے بارے میں قدیم یونانی شاعروں نے ایک عجیب پراسرار مخلوق کا تصور کیا تھا ایک ایسی مخلوق کی شکل  جس کا چہرہ، زلفیں، گردنیں حسین عورتوں جیسا اور باقی جسم پرندوں کی طرح ہوتا ہے اور جب یہ سائرنس گاتی ہے تو آس پاس کی دنیا انکے شیریں نغموں میں محو ہوجاتی ہے لوگ بے قابو ہو جوتے ہیں ، چلتے جہاز رک جاتے ہیں ملاح سمندر میں کود کر ان سائرنس کے جزیروں کی طرف تیرنے لگتے ہیں اور چٹانوں پر بیٹھ کر ان کے نغمے سنتے ہیں ان کو اپنی بھوک پیاس کا ہوش نہیں رہتا اور وہی چٹانوں پر دم توڑ دیتے ہیں انیسویں صدی میں ایک  اور جب یہ سائرنس گاتی ہے تو آس پاس کی دنیا انکے شیریں نغموں میں محو ہوجاتی ہے لوگ بے قابو ہو جوتے ہیہ اس موسیقار کا قدیم یونانی شاعروں کے تخیل کو ایک خراض عقیدت تھا

لفظ پمفلٹ کی بھی ایک عجب کہانی ہے ہمارے خیال میں پمفلٹ ایک چھوٹا اشتہار یا کتابچہ ہے مگر سات یا آٹھ صدی قبل پمفلٹ کے نام سے لوگوں کی رال ٹپکنے لگتی تھی بارہویں صدی میں اٹلی میں پمفلٹ نے ایک نہایت چٹ پٹی کہانی والی نظم کی حیثیت سے جنم لیا اس کہانی کا ہیرو ایک بوڑھا ہوتا ہے جس کو پیم فلیس کا نام دیا گیاپیم فلیس کے لفظی معنی دل پھینک عاشق کے ہوتے ہیں یہ ایک ایسے بوڑھے عاشق کی کہانی ہے جو معزز خواتین کو پہروں کے باوجود جل دینے میں کامیاب ہوجاتا ہے یہ کہانی اٹلی مین اتنی مقبول تھی کہ ہر کوئی اس کی چھو ٹے سے کاغذوں پر نقل کر کے تکیوں میں چھپا کر رکھتے ہیں کیونکہ اسوقت چھاپے کا کوئی رواج نہیں تھا اور جب چھاپے کے ایجاد کے بعد اس قسم کی کہانیوں کو چھوٹے کتابچوں یا کاغذوں پر چھاپ کر آسانی سے لوگوں تک پہنچایا جانے لگا تو اس میں پمفلٹ کا لٖفظ زندہ رہا ۔    

      



About the author

sss-khan

my name is sss khan

Subscribe 0
160