"اقبال کا پیغام عمل"

Posted on at


 

 

اللہ نے انسان کو تفکر کی صلاحیت بخشی ہے- سعی و کوشش کی خوبی سے نوازا ہے ترقی کے زینے طے کرنے کے لئے انسان کو الله نے ہر قسم کی قدرتوں سے مالا مال کیا ہے-  اس نے اگر انسان کو اپنا ناتب بنا کر بجھا ہے تو اسے وو تمام وو تمام وصاف بھی دے کر بجھا ہے جن سے وو ترقی کے تمام مراحل طے کر سکے اور خیر و شر میں تمیز کر سکے- اللہ نی اسے ہمت دی طاقت دی، استقلال دیا، بربادی دی،عقل دی اور عرفان ہے کے جب عمل کی طاقت سے ان سب خوبیوں پر حادی ہوا بقول اقبال

 

"عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی

یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے"

 

 

انسان کی ہر قسم کی کامیابی اور ترقی کا راز اس کی قوت عمل میں ہے- ١٨٥٧ کی جنگ آزادی کے بعد مسلمان جن حالت میں مبتلا ھوے وو صرف اور صرف عمل کی کمی کی وجہ سے تھا- اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ ملت کی کشتی اب کبھی نہ ابر سکے گی- سر سید نے تہذیب کی اس گھرتی دیوار کو سہارا دیا اور اسے دوبارہ کھڑا کر دیا- اس پس منظر میں اقبال کی صدا بلند ہوئی- اقبال نہ صرف اپنے دور کے جذبات و احساسات ، افکار و خیالات کو اپنی شعاعری میں سمو دیا بلکے روح عصر کو سمیٹ کر اسے ١ جھٹ، ١ سمت بھی دے دی-

اقبال نے شاعری سے بیک وقت دو کم کیے- ١ یہ ہے کے انہوں نے اپنے معاشرے کے انسانوں کو اپنی تہذیب، عقائد اور اقدار کی فکر کا شعور دیا جب فکر جذبہ بن کر انسان کو رگوں میں ترنے لگتی ہے تو اس سے پیدا  ہونے والی حررات ، عمل کی طرف لے جاتی ہے-

دو برابر کے شور کو راستہ دکھایا اور اس کی منزل کا تغین کیا اور پھر اسے نغمہ بنا کر جذبے میں تبدیل کر دیا اور اسی جذبے نے معاشرے  کو عمل کا راستہ دکھایا-

 

"ہو صداقت کے لئے جس دل میں مرنے کی تڑپ

پہلے اپنے پیکر خاکی میں جاں پیدا کرے

پھونک ڈالے زمین  و آسمان   مستعار

اور خاکستر سے اپنا جہاں پیدا کرے"

 

شاعر خواب دیکھتا ہے پھر یہ خواب پورے معاشرے کو دکھاتا ہے پھر خواب زندگی میں عمل کا پیغام بن جاتا ہے- اس کا حصول مقدر حیات بن جاتا ہے- اقبال کی شاعری سے ملت قوت عمل کا پیکر بن کر با شعور ہو گئی بقول اقبال

"نکل کر صحرا سے جس نی روما کی سلطنّت کی الٹ دیا تھا

سنا ہے قدسیوں سے میں نے وہ شیر پھر ہوشیار ہو گا"

 

الله کا فرمان ہے

"انسان کے لئے کچھ نہیں سواۓ اس کے جس کے لئے وہ خود کوشش کرتا ہے"

 مطلب یہ کے انسان کی کامیابی صرف اس کے عمل میں ہے اور ١ حوصلہ مند اور با ہمت انسان اپنی قسمت خود بناتا ہے-

اور جو لوگ کاہلی، بے ہمتی، بزدلی کی وجہ سے نہ کام رهتے ہیں اور پھر شکوہ تقدیر کا کرتے ہیں اور ان کے بارے میں اقبال فرماتے ہیں کہ

"خودی کو کر بلند اتنا کے ہر تقدیر سے پہلے

کہ خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے"

 

اقبال نہ صرف ہمارے ملک کا ہی  قومی شعر ہیں بلکے انڈیا اور بنگلادیش کے بھی قومی شعر ہیں انہو نے پاکستان بنانے سے پہلے پاکستان اور انڈیا کے لئے بھی بہت شعر و شعری کی جس میں سے یہ بھی ہے

 






About the author

hamnakhan

Hamna khan from abbottabad

Subscribe 0
160