وطن میرا زخم ہے پھوڑا ہے
تھا کبھی عزیز ، اب تھوڑا ہے
وo قافلہ کیسے منزل پہ پہنچے گا
خود رہبر ھی جس کا بیڑا ہے
بیروزگاری ، اندھیرے لوٹ مارا
پاک وطن میں کیا تم نے چھوڑا ہے
اپنی بدحالی کا حال آخر کس نے کہیں
سب نے خود عرضی کا لباس اوڑھا ہے
عدالت ، سیاست ، معیشت ، ثقافت
سب کو ہم نے اپنے مفاد میں موڑا ہے
کون ؟ کب ؟کیسے ؟ میرے وطن کو سنوارے گا
جس کو دیکھو باہر ممالک کی طرف دوڑا ہے