مخدوم جاوید ہاشمی نے اپنی سیاست کو بچا لیا

Posted on at


 

 مخدوم جاوید ہاشمی ایک جہاندیدہ سیاست دان ہیں۔جس دن عوامی تحریک اور تحریکِ انصاف کی ڈکٹیٹر شپ نے وزیرِ اعظم ہاﺅس اور پارلیمنٹ کی جانب بڑھنے کا ارادہ کیا تھا تو مخدوم صاحب نے سختی سے انہیں پارلیمنٹ پر یلغار کرنے سے منع کیااور جب ان کی ایک نہ سنی گئی تو انہوں نے تحریکِ انصاف سے اپنی راہیں الگ کر لیں۔ بعد ازا انہوں نے قومی اسمبلی سے آخری مرتبہ خطاب کیا اور اسمبلی کی رکنیت سے بھی مستعفی ہوتے ہوئے اپنے حلقے کے عوام کے پاس جانے کا اعلان کیا۔ تحریکِ انصاف سے علیحدگی کی چند وجوہات تو انہوں نے پریس کانفرنس میں بیان کر دی تھیں اور جو نہیں کر سکے وہ بھی کبھی نہ کبھی عوام کے سامنے آ ہی جائیں گی۔بیان کی گئی وجوہات کے چند اشارے عمران خان کی تقاریر میں نمایاں طور پر ملتے ہیں۔ مثلاً بار بار امپائر کی انگلی کی طرف دیکھنا یا فوج کی طرف سے گولی نہ چلانے کا عندیہ دینا وغیرہ ۔ پھر جب مارچ نے پارلیمنٹ کی جانب پیش قدمی کی اور جواباً پولیس نے شیلنگ کی تو اس وقت بھی خان صاحب بوکھلاہٹ میں کہہ رہے تھے کہ ایسا تو نہیں ہونا تھا۔آرمی نے اگر اوور ٹیک کرنا ہوتا تو مظاہرین کے پی ٹی وی پر قبضے نے اس کا کافی جواز فراہم کر دیا تھا لیکن ایسا نہیں ہو سکا ۔ بہر حال دیکھتے ہیں اب اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔ دوسری جانب فوج کی چھتری تلے اقتدار کے مزے لینے والے اور وزیر بننے کے شائقین کی بے چینی بھی بڑھتی جا رہی ہے اور طاہرالقادری کے کنٹینر میں ان کی آمدورفت میں تیزی آ گئی ہے۔ انقلاب کے داعی شیخ الاسلام شاید یہ بھول گئے ہیں کہ انقلاب کے لےے کسی کے اشارے کی ضرورت نہیں پڑتی بلکہ نظریہ سب سے بڑی اتھارٹی ہوتا ہے جس کے لےے سر دھڑ کی بازی لگا دی جاتی ہے، تب انقلاب آتے ہیں۔ کیونکہ انقلاب تو بغاوت کا دوسرا نام ہے اور اس میں ناکامی کی صورت میںبھی موت سے کم کوئی سزا نہیں ہوتی۔ کہا جاتا ہے کہ بدترین جمہوریت بھی بہترین آمریت سے بہتر ہے۔ کیونکہ اس بدترین جمہوریت کی خرابیاں بتدریج دور کی جاسکتی ہیں لیکن آمریت کا کوئی حل نہیں ہوتا ۔ صوبہ سرحد کا نام تبدیل کر کے خیبر پختون خوا کو آئین کا حصہ بنانا عوامی نیشنل پارٹی کا ایک بڑا انقلابی کارنامہ تھا جس کے لےے انہوں نے ساٹھ سال جدوجہد کی تھی لیکن بالآخر انہوں نے جمہوری طریقے سے آئین میں ترمیم کروا کر اپنی بات منوا لی تھی۔ عمران خان کو عوام نے موقع دیا ہے لیکن وہ اس موقع سے فائدہ اٹھانے کے بجائے کسی تیسری قوت کے منتظر ہیں۔ جمہوریت کو پٹڑی سے اتار کر فوجی حکومت کی راہ ہموار کرنا اگر انقلاب ہے تو ایسی آزادی اور انقلاب قبل ازیں پاکستانی عوام چار مرتبہ دیکھ چکے ہیں۔مخدوم جاوید ہاشمی کی تحریکِ انصاف سے علیحدگی اور بیانات سے اب تمام حقیقت واضح ہو چکی ہے اور جو لوگ ان دونوں کے اردگرد جمع ہیں ان شہرت کی بھی اس ضمن میں کوئی خاص اچھی نہیں ہے مثلاً چوہدری برادران اور شیخ رشید احمد ہمشیہ فوجی حکومتوں میں نوازے جاتے ہیںاور اپنا حصہ وصول کر لیتے ہیں۔علامہ صاحب تو الیکشن پروسس سے عموماً باہر ہی رہتے ہیں لیکن اب عمران خان کا سیاسی مستقبل بھی زیادہ تابناک نظر نہیں آتا۔ بہت سے لوگوں کو کہتے سنا ہے کہ گزشتہ انتخابات میں حسبِ توقع کامیابی حاصل نہ کر سکنے کی وجہ سے خان کو جو صدمہ پہنچا ہے اس نے اسے نفسیاتی مریض بنا دیا ہے اور اب وہ اٹھتے بیٹھتے اپنے آپ کو وزیرِ اعظم ہی سمجھتا ہے بلکہ اپنی تقاریر میں برملا اس کا اظہار بھی کر دیتا ہے۔ جیسے وزیرِ اعظم عمران خان آپ سے جھوٹ نہیں بولے گا۔
مخدوم جاوید ہاشمی کی سیاسی بصیرت لائقِ تحسین ہے کہ انہوں نے توتکار کی سیاست سے دامن چھڑا کر عوام سے رجوع کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے ۔ انہوں نے اپنی سیاست کو تو بچا لیا ہے کاش وہ اس ملک کو بھی ان گھناﺅنی سازشوں اور انتشار سے بچا پاتے۔ اس وقت امیر جماعتِ اسلامی سراج الحق کی سربراہی میں ایک سیاسی جرگہ افہام و تفہیم کی کوششوں میں لگا ہوا ہے امید ہے کہ جلد بہتری کی کوئی صورت نکل آئے گی۔ 

 

For more Subscribe me 

Thanks!



About the author

MadihaAwan

My life motto is simple: Follow your dreams...

Subscribe 0
160