Part(III) معرکہ عقل و عشق

Posted on at


Part(III) معرکہ عقل و عشق


عقل حیلہ گر اس سے بچنے کے ہزار بہانے پیدا کر سکتی تھی مگر یہ عشق کا فتون تھا کہ عقل کو بھی دیوانہ بنا لو۔ بات یہیں ختم نہیں ہوئی؎
ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں
عشق نے حکم دیا۔ حکم نہیں دیا صرف ایک اشارہ کیا ، اشارہ بھی نہیں کیا محض تمثیلی رنگ میں ایک واقعہ دکھایا وہ بھی خواب میں۔ عشق مجسم سمجھا کہ ایک بڑی قربانی اور مانگی جا رہی ہے۔ ایسی قربانی جہاں بڑوں بڑوں کا پتہ پانی ہو جائے۔ اس وقت کا اکلوتا چہیتا، لاڈلا فرزند، آنکھوں کی سب سے بڑی ٹھنڈک، نسل کی آخری امید گاہ، بڑھاپے کا عصا اور قوت بازو۔ خلیل سمجھا کہ اب اس کی قربانی مانگی جا رہی ہے کسی تشریحی وحی کا بھی انتظار نہیں کیا بس بیٹے سے مشورہ کیا، اور چھری لے کر تیار ہوگیا؎
کرشمہ کشش عشق میں کہ تا چندست
پدر مکشبتن فرزند خود رضامندست
عقل کہہ رہی تھی کہ یہ خواب کی باتیں ہیں ذرا وہی کا نتظار تو کر لو۔ بھلا آج تک کبھی ایسا ہوا ہے کہ باپ خود ہی بیٹے کی گردن پر بلا قصور چھری چلا دے؟ یہ کون سی عقل کی بات ہے؟ بے عقلی ہے سراسر نادانی ہے۔ مگر عشق آگے بڑھا اور آگے بڑھ کر وہ کچھ کر گیا کہ عقل و خردانگشت بدنداں کھڑی رہ گئی یہ تو خود ایک حسن اتفاق تھا کہ فرزند کی جگہ ایک چوپایا آ گیا، ورنہ خلیل تو اپنی طرف سے لخت جگر کو دے چکا تھا۔۔۔ یہ قربانیں اسی عشق خلیل کی یادگار ہیں عقل کچھ بھی کہے مگر تقاضا عشق یہی ہے کہ؎
ہم نے ان کے سامنے پہلے تو خنجر رکھ دیا
پھر کلیجہ رکھ دیا، دل رکھ دیا ، سر رکھ دیا
خلیل کی یادگار عشق فقط قربانی ہی نہیں بلکہ حج اور اس کے سارے مناسک بھی اسی کی یادگار ہیں۔ جذب عشق سے نکلی ہوئی ہر ادا رکن حج بن گئی۔ حج اور اس کے سارے مراسم عقل و خرد کو درس عشق دیتے ہیں یہ عقل کو ختم نہیں کرتے بلکہ اس کی اہلیت کو ختم کرکے اس میں آدمیت پیدا کرتے ہیں اس کی نمرودی تمرد کو فنا کرکے ابراہیمی جذب سے نوازتے ہیں۔ قاہری کے اندر دلبری کے انداز پیدا کرتے ہیں۔ جلا ل کو جمال سے ہم آہنگ کر دیتے ہیں۔
عقل خلیل کے اس جذب و کشش کو دیکھیے ۔ آج چار ہزار سال گزر گئے۔ دعا کی تھی کہ: الہی میں نے تیری رضا کی خاطر اپنے ایک بندے کو اس بے آب و گیاہ سر زمیں میں آباد کیا۔۔۔ لوگوں کے دل ان کی طرف مائل کردے اور انہیں ہر طرح کے ثمرات پہنچا، ارشاد ہوا کہ: تم لوگوں میں منادی کردو پھر تماشا دیکھو۔ لوگ پیدل بھی آئیں گے اور سواریوں پر بھی کشاں کشاں آئیں گے دور سے آئیں گے یہ ابراہیمی پکار اگر صرف ایک رسمی اعلان ہوتی تو اس کی عمر زیادہ طویل نہیں ہو سکتی تھی لیکن یہ اعلان عشق کا تھا لبیک اللہم لبیک کی شکل میں ایک ابدی، دائمی ہمہ گیر اور آفاقی جواب چاہتا تھا۔ عشق کی پکار نہ خالی جا سکتا تھی نہ اس میں کمزوری آ سکتی تھی ۔ یہ لبیک اللہم لبیک اس دعوت عشق کا جواب ہے ۔ دنیا کے ہر گوشے سے ہر قوم، ہر ملک، ہر زبان، ہر نسل اور ہر پیشے کے انسان کھنچے چلے آتے ہیں اس طرح کہ؎
من نہ باختیار خودمی روم از قفائے او
آں دو کمند عنبریں می بردم کشاں کشاں
امیروغریب کی تفریق، شاہ و گداکا امتیاز، بلند و پست کا فرق یہ سب کچھ یہاں کے آنش کدہ عشق میں جل کر بھسم ہو جاتا ہے، لباس ایک، منزل ایک، لگن ایک، سب کے لئے وہی مطاف، سب کے لئے وہی صفا مروہ کی دوڑ ، سب کے لئے وہی عرفات کا میدان، سب کے لئے وہی چاند ماری، سب کے لئے وہی قربانیاں ، کیا یہ یکسانی عین عشق کا تقاضا نہیں ؟ عشق ایک لگن ہے جو وحدت مطلوب کا تقضا کرتی ہے۔ اسی وحدت کی لگن نے سب کو ایک رنگ میں رنگ دیا ہے اور تمام ادنی تفریقوں کو مٹا دیا ہے۔ یہ سارے مناسک حج عشق خلیل کے کرشمے ہیں جو ہمیشہ ہر رنگ میں باقی رہیں گے؎
صدق خلیل بھی ہے عشق ، صبر حسین بھی ہے عشق
معرکہ وجود میں بدرو حنین بھی ہے عشق


 


Writer:


مولانا جعفر شاہ پھلواروی   



About the author

Ihtasham-Zahid

I am student of Electronics Engineering in International Islamic University Islamabad.

Subscribe 0
160