untiteld

Posted on at


وہ امریکہ کی ایک بہت بڑی کمپنی میں ایک بہت بڑے عہدے پر انتہائی بھاری معاوضے کے عوض خدمات سرانجام دے رہا تھا . وہ صبح آٹھ بجے اپنے دفتر آتا اور رات بارہ بجے تک لگا تار کام کرتا . اس کو اللہ نے ایک بیٹے سے نواز رکھا تھا. اس کی مصروفیت کا یہ عالم تھا کہ وہ اپنے اکلوتے بیٹے کو بھی وقت نا دے پاتا اس کا بیٹا اس کے جاگنے سے پیشتر سکول جا چکا ہوتا اور جب وہ رات کو بارہ بجے واپس لوٹتا تو اس وقت وہ سو چکا ہوتا . سن 1998 کی بات ہے ایک بار اس کا ایک ٹی وی پر انٹرویو چل رہا تھا جس میں وہ بڑے فخر سے بتا رہا تھا کہ اس کی کمپنی اس کو ایک گھنٹے کا پانچ سو ڈالر معاوضہ دے رہی ہے . اس وقت اس کی بیوی اور بیٹا بھی اس کا انٹرویو دیکھ رہے تھے . رات بارہ بجے جب وہ حسب معمول دفتر سے واپس گھر پہنچا تو اس کا معصوم بیٹا جاگ رہا تھا اس نے آگے بڑھ کر باپ کا بیگ اٹھا لیا اور والد کو لیکر کمرے میں آگیا . باپ کو صوفے پر بٹھا کر نہایت عاجزانہ انداز سے کہنے لگا ڈیڈی کیا آپ مجھے پچاس ڈالر ادھار دیں گے ؟ اس کے باپ نے جیب سے پچاس ڈالر کا نوٹ نکال کر دیا اور خوش دلی سے کہنے لگا بیٹا سب کچھ تمہارا ھی تو ہے . اس کے بچے نے جیب سے پاکٹ منی کے جمع کئے ہوئے نوٹ اور ریزگاری نکالی اور سب ملا کر باپ کو دے دئیے . باپ حیرت سے بیٹے کو دیکھنے لگا . بچے نے نہایت آزردہ لہجے میں کہا ڈیڈی یہ پانچ سو ڈالر ہیں میں آپ سے اپنے لئے ایک گھنٹہ وقت خریدنا چاہتا ہوں میں آپ کو چھو کر دیکھنا چاہتا ہوں آپ سے لپٹنا چاہتا ہوں کھیلنا چاہتا ہوں باتیں کرنا چاہتا ہوں کیا آپ مجھے ایک گھنٹہ دے سکتے ہیں ؟ میں آپ کو آپ کا پورا معاوضہ دے رہا ہوں . باپ کی آنکھوں میں آنسو آ گئے وہ کچھ دیر اپنے اوپر ضبط کرنے کی کوشش کرتا رہا . جب خود پہ قابو پانا ناممکن ہو گیا تو بے اختیار بیٹے سے لپٹ گیا اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا .
آج کے اس نفسا نفسی کے دور میں ہم بہت مصروف ہو چکے ہیں ہم اپنے اردگرد کو مکمل طور پر بھلا چکے ہیں چند لمحے رک کر سوچئے گا کہ ہمارا کوئی بہت ھی اپنا ہم سے ہمارا قیمتی وقت خریدنے کیلئے رقم جمع تو نہیں کر رہا ؟



About the author

abubakar-khatana

i m a student... i from pakistan.... i want mony for further stdy in abroad

Subscribe 0
160