زاغوں کے تصرف میں عقابوں کا نشیمن

Posted on at


بازار سے گزرتے ہوئے اچانک کسی کے چیخنے چلّانے کی آواز سماعت سے ٹکرائی جس نے مجھے آواز کی سمت دیکھنے پہ مجبور کر دیا۔ دیکھتا ہوں کہ ۱۵۔۱۴ سال کے ایک بچّے کو دو جوان اور تین معمر اشخاص روئی کی طرح دھن رہے ہیں۔ میں دوڑا دوڑا وہاں پہنچا اور ان حضرات سے مار پیٹ کی وجہ جاننا چاہی تو میرے استفسار پہ ان حضرات میں سے ایک شخص گویا ہوا کہ یہ بچہ میری دکان سے چند پکوڑے اٹھا کر بھاگ رہا تھا کہ میری نظر پڑ گئی اور میں نے اسے دبوچ لیا، شکر خدا کاکہ میری نظر عین موقع پہ پڑ گئی ورنہ یہ خبیث پکوڑے لے اڑتا۔ ’’ مارو،اور زور سے مارو تاکہ اسے آئندہ کے لیے عبرت حاصل ہو اور اسے معلوم ہو جائے کہ چوری کرنا کتنا قبیح فعل ہے‘‘۔میں کہ ابھی تک معاملے کو ٹھیک سے سمجھ بھی نہ پایا تھا بمشکل ان لوگوں کی منت سماجت کر کے ان لوگوں سے اس بے چارے لڑکے کی جان چھڑوائی اوراس واقعے کو ذہن میں لیے اور اس بچّے پہ افسوس کرتا ہوا آگے چل پڑا۔گھر پہنچا تو ایک چینل کی جانب سے نشر ہونے والی ایک خبر نے میری توجہ اپنی طرف مبذول کر لی۔ یہ خبراسلامی نظریاتی کونسل کے تازہ ترین ’’اجتہاد‘‘ کے حوالے سے تھی۔ خبر تھی کہ ’’خاتون جج حدود اور قصاص سے متعلقہ مقدمات کی سماعت نہیں کر سکتی،بچّوں کو سزا دینا غیر شرعی نہیں،تحفظِ پاکستان ایکٹ اور قومی دفاعی پالیسی خلافِ شریعت ہے،اجلاس میں بلاسود بینکاری اور معاشی فلسفے کا بھی جائزہ لیا گیا وغیرہ وغیرہ‘‘۔میں ابھی ان خبروں پہ غوروخوض کر ہی رہا تھا کہ اچانک بازار میں رونما ہونے والا واقعہ ذہن میں عود آیا اور مجھے اس واقعہ کے رونما ہونے کی اصل وجہ بھی معلوم ہو گئی۔
اسلامی نظریاتی کونسل سے پوچھا جائے کہ آپ کون سے عہد میں بس رہے ہیں، آپ پہلے اپنے آپ سے پوچھیں کہ کیا آپ کو جدید نفسیاتی علوم سے آگاہی ہے جو آپ نے بلا سوچے سمجھے بچّے کو سزا دینا شرعی قرار دے دیا،کیا آپ کو جدید معاشی علوم سے آگاہی ہے یا آپ کے پاس کوئی معاشیات کا expert ہے یا کیا آپ کے پاس کوئی متبادل معاشی نظام ہے جو آپ بلا سود بینکاری پہ اور معاشی فلسفے پہ غوروخوض فرما رہے ہیں(معاشی تو درکنار انہیں فلسفے کی شد بد تک نہ ہو گی)، خاتون جج حدود اور قصاص کے مقدمات نہ سنے تو مقدمات جو پہلے ہی ہماری معزز عدالتوں میں مہینوں لٹکے رہتے ہیں اور ججز کی کمی کے باعث سالوں میں بھی ان کے فیصلے نہیں ہو پاتے۔ اسلامی نظریاتی کونسل سے پوچھا جائے کہ یہ کون سی شریعت ہے جس کا سفربنیادی انسانی حقوق پورے کے بغیر فرائض کی تقاضا کرتی ہے۔
علامّہ اقبال کے دیے گئے تصورِشوریٰ کا مقصد ہرگز ایسی اسلامی نظریاتی کونسل نہیں تھی اور نہ اس کے اراکین سے مراد ایسے علمائے کرام تھے بلکہ اس سے مراد (مختصراً) وہ لوگ تھے جو عصر شناس ہوں اور جنہیں جدید علوم سے بھی آگاہی ہو۔ حدیثِ رسولؐ بھی یہی ہے کہ مومن عصر شناس ہوتا ہے یعنی زمانے کے ساتھ چلنے والا ہوتا ہے۔کونسل کے اراکین سے پوچھا جائے کہ کیا آپ نے کبھی کسی کو حقوق العباد کے بارے بھی بتایا اور اگر بتایا تو کس کس نے آپ کی بات پہ عمل کیا، کوئی عورت پردہ نہ کرے تو تمام علماء چیخ اٹھتے ہیں مگر کسی بچے کو سرِبازار مارنے اور پیٹنے پہ علماء خاموش،کیا آپ نے کبھی یہ کسی کو بتایا کہ کوئی بچہ اگر ایسی حرکت کرے تو اس کی سزا مار پیٹ ہرگز نہیں بلکہ یہ تو مقامِ فکر ہے کہ آخر اس بچے کا شکم کسی نے سیر کرنے کی زحمت کیوں گوارا نہیں کی کہ آج وہ ایسی حرکت کرنے پہ مجبور ہو گیا۔ بھوکے ننگے لوگ ہمارے اطراف میں ہماری امارت کا مذاق اڑاتے پھرتے ہیں،دہشت گردی نے ہمیں اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے، سرحدوں پہ تناؤ موجود ہے، روپیہ دن بہ دن اپنی قدر کھوتا جا رہا ہے، مہنگائی آسمان کو چھو رہی ہے، توانائی کا بحران ہے، رشوت اور سفارش کے بنا نوکری کا حصول ممکن نہیں، لین دین کے بغیر کسی سرکاری ادارے میں کوئی کام نہیں ہوتا؛ایسے میں شریعت کی یہ تعریف ماورائے عقل و فلسفہ ہے۔ یہ لمحہِ فکریہ ہے کہ آخر کب تک ہم انdogmatic علماء کے ہاتھوں میں کھلونوں کی مانند رہیں گے، آخر کب تک ہم مذہب کی سمجھ بوجھ حاصل کرنے کے لیے خود عملی قدم نہیں اٹھائیں گے، کب تک ہمارا انحصار دوسروں پہ رہے گا۔ ہمارا مذہب نہ تو asceticism کی تلقین کرتا ہے اور نہ gnosticismکا پرچار کرتا ہے بلکہ اسلام عین دینِ فطرت ہے۔اسلامی نظریاتی کونسل کے اراکین کو بھی اس تیقن کی اشد ضرورت ہے کہ وہ ایک قومی ادارہ ہے،کسی مدرسے کا دارالفتاء نہیں۔ 
جانے کب ،کون،کسے مار دے کافر کہہ کر
شہر کا شہر مسلمان ہوا پھرتا ہے
دنیا کو پہلے ہی بہت سے اور مواقع اور واقعات ہماری قوم پہ ہنسنے کو میسر ہیں، ضروری نہیں کہ ہم ایسے بیانات دے کر دوسری اقوام کو خود پہ ہنسنے کے مزید مواقع بھی فراہم کریں۔

 

For more Subscribe me 

Thanks!



About the author

MadihaAwan

My life motto is simple: Follow your dreams...

Subscribe 0
160