پاکستان میں معیار تعلیم کی پستی کی وجوہات

Posted on at


تعلیمی نظام کو کسی بھی ملک کی ترقیاتی ڈھانچے میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت حاصل ہے۔ ایک پرائی کہاوت ہے کہ اگر سال بھر کوئی منصوبہ بندی کرنی ہے تو فصلیں اگاؤ۔ اگر ایک سو سال کی منصوبہ بندی کرنی ہے تو درخت اُگاؤ اور اگر آئندہ ایک ہزار سال کی منصوبہ بندی کرنی ہے تو تعلیم پر سرمایہ لگاؤ۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ جن قوموں نے تعلیم کی طرف توجہ دی اور اس کے معیار کو بہتر سے بہتر کرتے چلے گئے انہوں نے بہت کم وقت میں ترقی کی منزلوں کو پا لیا۔ اس کی چند بڑی مثالیں امریکہ، جاپان، چین ، برطانیہ اور فرانس ہیں۔ جو قومیں تعلیم کو ثانوی حیثیت دیتی ہیں وہ کبھی اپنے مقصد میں کامیابی حاصل نہیں کر سکتی۔ 


 



 


تعلیم کی حیثیت کسی بھی ملک و معاشرے کے لیے روشنی کے مینار کی ہے جو قوم کی رہنمائی کرتی ہیں۔ ہمارے ملک میں تعلیم کی کشتی پانچ دہائیوں سے اب تک اپنی منزل سے بیگانہ ہے۔ اگرچہ ہر حکومت نے اپنے طور پر تعلیم کو پہلی ترجیحات میں شامل کیا اور معیار تعلیم کی اصلاح کے لیے مفید پالیسیاں مرتب کیں لیکن ان پر عمل درآمد نہ ہونے کی وجہسے تعلیم کا مسئلہ آج بھی جوں کا توں ہے۔ 
تعلیم کے فروغ کے حوالے سے ہر دور کی حکومت خواندگی کی شرح کو پہلے سے کچھ اوپر لانے میں تو کچھ کامیاب ہوئی ہے لیکن ابھی بھی نظام میں بہت سی کمزوریاں ہیں۔ 
حکومتیں اسکولوں کی تعداد بڑھانے ، اساتذہ اور طلبہ کی تعداد بڑھانے میں تو کچھ کامیاب ہو رہی ہیں لیکن ہمارا تعلیمی نظام ہمارے مقاصد کا درست طور پر ترجمان نہیں ہے۔ نظام تعلیم کا رخ پھیلاؤ کی طرف زیادہ ہے لیکن معیار پر کوئی توجہ نہیں ہے۔ 
ہمارے نظام تعلیم کا ایک بڑا نقص یہ ہے کہ اس میں تربیت کا عنصر نہیں ہے۔ تربیت کے بغیر تعلیم کسی قوم کے لیے مسائل کا حل نہیں ہو سکتی بلکہ بڑے بڑے مسائل کو جنم دیتی ہے۔ 



 


ہمارے تعلیمی نظام کی ایک اور بڑی خامی طلبہ کے لیے یکساں تعلیمی مواقع کی عدم دستیابی ہے۔ ہمارے ہاں دو تعلیمی نظام چل رہے ہیں ایک انگریزی اور دوسرا اردو نظام تعلیم ۔ انگریزی نظام امراء کے بچوں کے لیے ہے اور اردو نظام غریب طبقے کے بچوں کے لیے ہے۔ یہ طریقہ کار ہمارے نظام کی سب سے بڑی خامی ہے۔ جب ملک میں یکساں تعلیمی نظام نہیں ہو گا تو ترقی کیسے ممکن ہے۔ پرائیویٹ تعلیمی ادارے یکساں تعلیمی مواقع کے حصول میں سب سے بڑی رکاوٹ بنے ہو ئے ہیں۔ ہر تعلیمی ادارے میں مختلف نصاب رائج ہونے کی وجہ سے ترقی کے امکان بھی نہ ہونے کے برابر ہیں۔ نظام تعلیم کے فروغ کی راہ میں حائل ایک بڑا مسئلہ نصابی کتب کی عدم دستیابی بھی ہے۔ ایک اور بڑا مسئلہ خواتین کی تعلیم بھی ہے ابھی بھی 70 فیصد خواتین تعلیم سے بے بہرہ ہیں۔ 
معیار تعلیم کی پستی کی وجوہات میں ایک بڑی وجہ ہمارا امتحانی نظام بھی ہے یہ نظام فرسودہ بنیادوں پر قائم ہے۔ امتحانی نظام، نظام تعلیم میں بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔ اسی سے نظام تعلیم کے معیار کا تعین بھی ہوتا ہے۔ کیونکہ جب تک جانچنے کا نظام درست نہ ہو گا تو تعلیمی سند کی کیا حیثیت ہوگی ۔ جب تک امتحانی نظام کو شفاف نہیں بنایا جاتا ہما ری تعلیمی ڈگری کی دنیا میں کوئی حیثیت نہیں ہو سکتی۔ 
ہماری حکومتوں کو چاہیے کہ فروغ تعلیم کے لیے بڑی بڑی رقمے مختص کرنے کے علاوہ ان کے عملی مسائل کی طرف توجہ دے اور اُن کو حل کرنے کی کوششیں کریں تا کہ ہمارا تعلیمی معیار بلندی کی طرف گام زن ہو۔ 



About the author

STariq

Like to write on social issues

Subscribe 0
160