مجموعی طور پر دیکھا جائے تو اگر ٹی وی بند کر دیا جائے اور ساری توجہ کھانے پر مرکوز ہو تو توبچے زیادہ صحت بخش غذا اپنے جسم میں داخل کر سکتے ہیں مگر دوسری صورت میں بھی مشاہدہ کرنے والوں کو اتنا بڑا فرق دکھائی نہیں دے سکا ہے جس کی دراصل وہ توقع کر رہے تھے۔ سب سے بڑا فرق یہی دیکھنے میں آیا ہے کہ بچے تواتر کے ساتھ اپنے والدین یا گھر کے دیگر افراد کے ہمراہ کھانا نہیں کھا پاتے ہیں۔ والدین کے ہمراہ کھانا نہ کھانے والے لڑکے عام طور پر بہت کم سبزیاں کھاتے ہیں اور کیلشیم سے بھرپور غذاؤں سے محروم رہتے ہیں جبکہ والدین کے ہمراہ کھانا کھانے والوں میں ایسی کمی دیکھنے میں نہیں آتی کیونکہ والدین کی موجودگی میں انہیں میز پر چنی گئی بیشتر غذاؤں کو کھانا پڑتا ہے جو تنہا کھانے کی صورت میں وہ کھانے سے گریز کرتے ہیں۔ سائنسدانوں کا مشاہدہ والدین کو ایک سبق ضرور دیتا ہے کہ ساتھ بیٹھ کر کھانا سب سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ اس دوران ٹی وی کا سوئچ آن کر دینا خواہ اس کی حقیقی طور پر خواہش محسوس نہ ہو رہی ہو اس اعتبار سے بامقصد ثابت ہو سکتا ہے کہ روکے پھیکے، بیزار اور تنگ مزاج بچے بھی کھانے کی میز پر پہنچ جاتے ہیں اور گھر کے وہ افراد بھی کھانا کھاتے نظر آ سکتے ہیں جو کہ تنہا کھانے کی عادی ہوتے ہیں۔
جو لوگ اکیلے ہی کھانا کھاتے ہوں ان کی غذائی عادات بھی کچھ عجیب سی ہو جاتی ہے جیسے کہ وہ بھوک لگنے پر کوئی بھی پیزا کھا سکتے ہیں لیکن اگر وہ فیملی کے افراد کے ہمراہ پیزا کھا رہے ہوں تو پھر میز پر کوئی سبزی یا سلاد بھی لازمی طور پر موجود ہو گی۔ ساتھ بیٹھ کر کھانا کھانے کی عادت والدین کو اس امر کی اجازت بھی دیتی ہے کہ وہ اپنے بچوں کے لیے کھانے پینے کے اعتبار سے ایک مثال بن سکیں پھر یہ کہ کھانے کے اوقات میں والدین کو عموماً یہ موقع بھی مل جاتا ہے کہ وہ اپنے بے پناہ مصروف بچوں پر ایک نگاہ ڈال سکیں، ان کی عادات و اطوار کو سنواریں اور ان کی زندگی سے منسلک رہیں۔ جدید معاشرے میں بچوں کو والدین کے ساتھ مل بیٹھنے اور ان کے ساتھ گفت و شنید کا موقع بہت کم ملتا ہے جس کی وجہ صرف یہ ہے کہ کہیں والدین بہت زیادہ مصروفیت کا شکار رہتے ہیں تو کہیں بچے اپنے معمولات میں ان کے لیے وقت نہیں نکال پاتے اور کھانے کی ٹیبل وہ جگہ ہوتی ہے جہاں کچھ دیر یکجا ہونے کا موقع میسر آ سکتا ہے۔ یقینی طور پر بہت سارے والدین جب اس مشاہدے سے آگاہ ہوں گے اور مرتب کی جانے والی رپورٹ کو پڑھیں گے تو انہیں شرمندگی سی محسوس ہو گی کہ اگر وہ اپنے کاموں کا شیڈول سدھار لیتے اور بچے اپنی غیر نصابی سرگرمیوں کو ذرا سا محدود کر لیتے تو انہیں کھانے کی ٹیبل پر یکجا ہونے کا موقع مل سکتا تھا جو کہ کئی اعتبار سے ایک فائدہ مند چیز ہے۔
مصنفہ: زاریہ وھاب
:ٹویٹر پر مجھے فالو کرنے کے لیے یہاں کلک کریں
:اور میرے بلاگ شیئر کرنے کے لیے اس لنک پر کلک کریں
http://www.filmannex.com/Zaria-Wahab/blog_post