١٤ مارچ ٢٠١٤جمعہ کے دن سب لوگ بارگاہ الہی میں نماز ادا کرنے کے لئے کھڑے تھے اسی وقت فرسٹ ائیر کی طالبہ جو مظفر گڑھ کی رہائشی تھی وہ اپنے ظلم کی داستان لئے منصف کائنات کے پاس پہنچ گئی دنیا کے منصف اسے انصاف نہیں دے سکے تو اس نے اپنا مقدمہ بڑے منصف کے پاس لے جانا ہی بہتر لگا - ہم لوگوں نے اخبارات اور نیوز چینلز میں اس معصوم کے ساتھ اجتماعی زیادتی کا سنا ہو گا، جس نے اپنا سب کچھ کھو دیا لیکن ان درندوں کا بال بھی باکا نہیں ہو سکا اور آخرکار اس نے اپنی جان بھی کھو دی-
فرسٹ ائیر کی اس طالبہ کو امارت تو نہیں ملی تھی لیکن خوب صورتی سے مالامال تھی، اس کی یہی خوبصورتی اس کی بربادی کا سامان بنی- جب عدالت سے اسے انصاف نہیں ملا اور درندوں نے اپنی کامیابی کا جشن منایا اس معصوم نے قانون کے رکھوالوں کے سامنے ہی اپنے آپ پر پٹرول چھڑک کر آگ لگا دی اور ساتھ ساتھ چلا چلا کر ملزموں کے نام لیتی جا رہی تھی - اس منظر کو سب تماشایئوں نے بڑے شوق سے دیکھا، اور فوٹوگرافروں نے اس لڑکی کی جان بچانے سے بہتر اس دردناک منظر کی تصویر محفوظ کرنا ضروری سمجھا- جب وہ طالبہ ہسپتال پہنچائی گئی تب وہ اپنی زندگی کی آخری سانسیں گن رہی تھی اور اس غریب کی ماں صدمے سے دوچار ہو کر بے ہوش پڑی تھی- اس لڑکی نے دم توڑ دیا اور اپنے پیچھے بہت سی شکایات اور سوالات چھوڑ گئی-
"حسرت ان غنچوں پہ ہے جو بن کھلے ہی مرجھا گئے-"
مارچ بہار کا موسم ہوتا ہے ہر طرف رنگ برنگے پھول کھلتے ہیں، مردہ پودوں اور درختوں میں جان آتی ہے بہار کے حوالے سے بہت سی تقاریب منعقد کی جاتی ہیں ہر طرف جشن کا سماں ہوتا ہے ، مگر یہ بہار اس طالبہ کے لئے پت جھڑ ثابت ہوئی اور اس کو راس نہیں آئ اس کی زندگی کا چراغ ہی بجھ گیا- اس کے گھر والوں سے کوئی پوچھے کس اذیت اور کرب سے گزر رہے ہیں وہ لوگ ، جس پر تکلیف گزر رہی ہوتی ہے صرف وہی جان سکتا ہے اس پر کیا بیت رہی ہے کوئی کسی کا غم کم نہیں کر سکتا لوگ تو صرف تماشا دیکھ کر مزہ لیتے ہیں-
اس طالبہ کی خود کشی اپنے پیچھے بہت سے تلخ سوالات چھوڑ گئی ہے ایسے سوالات جن کا جواب ڈھونڈنا ضروری ہے پر افسوس در افسوس کسی کے پاس اس کا کوئی جواب نہیں ہے- ہر سال تعلیم کے نام پر اربوں روپے خرچ کیے جاتے ہیں لیکن تبدیلی نہیں آتی پتہ نہیں اس تبدیلی کی ہم سے کیا دشمنی ہے جو ہم سے منہ موڑ کر بیٹھی ہوئی ہے- صرف مظفر گڑھ کی یہی طالبہ نہیں ہر روز نا جانے کتنی معصوم لڑکیاں ان وحشیوں کے ہاتھ لگ کر اپنی عزت و عصمت کے ساتھ ساتھ جان بھی کھو دیتی ہیں لیکن پولیس اہلکاروں کو پوچھنے والا کوئی نہیں ہوتا- ایک روپے کی ماچس اور تیس روپے کا پٹرول ان کی اذیت کم کر دیتا ہے لیکن اس معاشرے میں انھیں انصاف نہیں ملتا-
کیا کیا خواب اس لڑکی نے دیکھے ہوں گی، اس غریب کے ماں باپ نے کیا کیا نہ سوچا ہو گا- لوگ کہتے ہیں "بیٹیوں سے نہیں ڈر لگتا ان کی قسمت سے ڈر لگتا ہے" ماں باپ کا ڈرنا ٹھیک ہی تو ہوتا ہے- کیا اس معاشرے میں کسی بھی لڑکی کی عزت محفوظ ہے؟ حکومت نے تو پانچ لاکھ کا چیک اس کے ماں باپ کو پکڑا دیا کیا یہ پانچ لاکھ کا چیک اس غریب کے ماں باپ کے دکھوں کا مداوا کر سکتا ہے؟ کیا اس پانچ لاکھ سے عزت محفوظ کی جا سکتی ہے؟ لوگ کہتے ہیں پاکستان میں بہت مہنگاہی ہے، کیسی مہنگائی اور کہاں کی مہنگائی، عزت سب سے قیمتی ہوتی ہے وہی ہمارے ملک میں سستی ہے تو کیا مہنگائی ہے؟ تیس روپے میں موت مل سکتی ہے تو کیا یہ مہنگائی ہے؟ ہم لوگ بہت کچھ کر سکتے ہیں لیکن اس نفسا نفسی کے دور میں کوئی کسی کا نہیں سوچتا-