اللہ پاک نے اپنے اور بندوں دونوں کے حقوق ادا کرنے کا حکم دیا ھے اور یہ بات طے ھے کہ اللہ پاک اپنے حقوق شاہد بخش دے لیکن بندوں کے حقوق اس وقت تک نہیں بخشے گا جب تک بندہ خود اس شخص کو نہ بخش دے اس سے پتہ چلتا ھے کہ اللہ پاک نے خود سے بھی زیادہ بندوں کے حقوق ادا کرنے پر زور دیا ھے اور ہمیں یہ بات بتلا دی گئی ھے کہ اللہ پاک کی مکلوق کے ساتھ احسان سے پیش اٗو اور بندوں کے حقوق پورے کریں۔
اس دنیا میں لوگ زاتی مفاد کی خاطر صبح سے لے کر شام تک اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر نگر نگر، شہر شہر، اور قریہ قریہ گھومتے ھیں ۔ مشکلات و مصائب برداشت کرتے ھین۔ اور اپنی زات کو مشکل کام پر بھی امادہ کر لیتے ھیں غریب اور مفلس لوگوں کے کون چوسنے کو اپنی سعادت سمجھتے ھیں۔ عزت دولت اور شہرت کے ھصول کی خاطر بعض اوقات اپنا ضمیر بھی فروخت کر دیتے ھیں ۔ اس طرح کے خود غرض اور لالچی لوگ حقیقی مسرت اور خدا کی خوشنودی سے دور ہوتے ھیں۔
ایسے لوگوں کے برعکس تھوڑے سے لوگ اپنے زاتی مفاد کو پس پشت ڈال کر دوسروں کے لئے اور ملک و قوم کی بھلائی کے لئے ملک کی ترقی کے لئے جیتے ھیں اور محنت کرتے ھیں ۔ ایسے لوگون کا نام ہمیشہ زندہ رہتا ھے اللہ پاک نے جس مقصد کے لئے انسان کو دنیا میں بھیجا ھے یہ یہ لوگ اس مقصد کی تکمیل کا زمہ بھرتے ھیں ۔ اگر انسان کی تخلیق کا مقصد صر اللہ پاک کی عبادت ہوتا تو اس کام کے لئے فرشتے ہی کافی تھے۔
تاریخ گواہ ھے کہ عطیم لوگ انسان دوست تھے اپنے اندر وہ لوگوں کا دکھ درد لئے ہوتے تھے ۔ ان کو لوگوں کی ترقی اور بھلائی عزیز تھی سادگی سے زندگی بسر کرنا ان کا شعار تھا۔ خوف خدا ان کا سب سے بڑا ہتھیار اور عشق رسول سب سے بڑا زریعہ تھا۔ لوگ ان کی یاد دل میںإ رکھنے پر مجبور تھے اور ان لوگوں کے لئے ہر وقت اللہ سے دعا کرتے تھے کہ اللہ پاک ان لوگوں پر اپنا خصوصی رحم و کرم فرما۔
اسلامی تاریخ کا اگر مطالعہ کیا جائے تو ہمیں انسان دوستی کی عظیم مثالیں ملتی ھیں مثلاحجرت ابو بکر صدیق، حضرت عمر، حضرت عثمان، حضرت علی اور دیگر صحابہ اکرام کی زندگیاں ہمارے سامنے ھیں۔ پاکستانی لوگ ان شہیدوں کے لہو کو بھی سلام پیش کرتے ھیں جہنوں نے اس ملک و قوم کے لئے اپنی زندگیاں قربان کیں ۔ ثابت ہوا کہ خدمت خلق سے بڑھ کر کوئی نیکی نہیں ھے جو لوگ اپنی زندگیاں دوسروں کی خوشیوں کے لئے قربان کر دیتے ھیں قومیں ہمیشہ ان پر فخر کرتیں ھیں لوگ ان عظیم ہستیوں کو یاد کرنا سعادت سمجھتے ھیں ۔ دنیا ایسے ہی لوگوں کی بدولت قائم ھے ۔ کیونکہ خدمت خلق ان کا شعار تھا ؛
یہی عبادت یہی دین و ایمان
کہ کام ائے دنیا میں انسان کے انسان