پارٹ ۲))لاہور کی گلیاں اور بازار

Posted on at


بیڈن روڈ بھی لاہور کی ایک اہم سڑک ہے جو اب بجلی کے سامان کی بڑی مارکیٹ ہے۔ بیڈن روڈ جنکے نام پر رکھی گئی انکا پورا نام  سر سیل بیڈن تھا۔ یہ بنگال انتظامیہ میں ہندوستان آۓ تھے۔  ۱۸۵۷ کے دوران یہ ہندوستان کے چیف سیکرٹری تھے۔ جب ریاست اڑیسہ میں قحط آیا تو سر سیل بیڈن کو اسکا ذمہ دار قرار دے کر نوکری سے فارغ کر دیا گیا حالانکہ وہ ایک ایماندار افسر تھے۔ انہوں نے پوری تحقیق کے بعد یہ نچوڑ نکالا تھا کہ یہ قحط صرف تقسیم میں بے ضابطگیوں کی وجہ سے آیا۔ ورنہ خوراک کی کمی نہیں تھی۔ کتنی حیرت کی بات ہے کہ سر سیل بیڈن نے جو نتیجہ نکالا اس پر اسے معطل کر دیا گیا۔ لیکن ایک سو پچاس سال کے بعد ڈاکٹر امر تاسین کو اسی نتیجے پر پہنچنے کی وجہ سے نوبل انعام کا حق دار ٹھہرایا گیا۔ سیل بیڈن وہ واحد برطانوی افسر تھے۔ جنہوں نے پیش گوئی کی تھی کہ اگر بنگال آرمی کی تنخواہوں میں اضافہ اور دیگر سہولتوں کے علاوہ انکا سروس سٹرکچر بہتر نہ کیا گیا تو بنگال آرمی میں بغاوت ہو سکتی ہے۔

ڈیوس روڈ بھی لاہور کی ایک معروف سڑک ہے۔ جو مال روڈ سے شملہ پہاڑی تک جاتی ہے۔ اسکا نام سرآغا خان روڈ رکھ دیا گیا۔ لیکن اکثر لوگ اسے ڈیوس روڈ ہی کہتے ہیں۔ کتنوں کو پتہ ہے ڈیوس روڈ اسکا اصل نام نہیں ہے۔ بلکہ بگڑا ہوا نام ہے۔ اصل نام تو ڈیویز روڈ ہے۔ کسی زمانے میں یہ بہت خوبصورت سڑک تھی۔ جسکے دونوں اطراف درخت تھے۔ اب تو درختوں کی جگہ پلازوں نے لے لی ہے۔ ڈیویز کو پنجاب میں سیکرٹری بنا کر بیھجا گیا تھا۔

سر آغا خان کی خدمات سے بھی انکار نہیں لیکن کیا ہی اچھا ہوتا کہ کسی اور بڑی سڑک کو انکے نام سے منسوب کیا جاتا اور ڈیویز روڈ کو یوں ہی رہنے دیا جاتا۔

کوپر روڈ بھی ایک اہم سڑک ہے۔ یہ آدمی یقیناً ولن بن چکا ہے۔ کیونکہ ۱۸۵۷ میں یہ امرتسر کے ڈپٹی کمشنر تھے۔ لاہور میں جب فوجیوں نے حکم ماننے سے انکار کیا تو یہ کوپر ان فوجیوں کی موت کا زمہ دار تھا۔ لاہور کے صدر بازار میں اسنے ۵۰۰ آدمیوں کو الگ تھلگ کر دیا تھا۔ جن میں سے اکثر مارے گئے تھے۔ باقی کو اسنے واہگہ پولیس پوسٹ میں بند کر دیا تھا۔ وہاں ۵۷ فوجی دم گھٹنے اور بھوک پیاس کی وجہ سے مارے گئے تھے۔ اسکا پورا نام فریڈرک کوپر تھا۔ انس نے ۱۰ مئی ۱۸۵۷ سے سقوط دہلی تک کے واقعات پر مبنی ایک رپورٹ کرائسز ان پنجاب لکھی۔ اس نام کو برقرار رکھنے مین کوئی ہرج بھی نہیں ہے کیونکہ یہ ہماری تاریخ کا ایک افسوس ناک واقعہ ہے اور ایسے واقعات کو بھی یاد رہنا چاہیئے۔

برانڈ رتھ روڈ، جو ریلوے سٹیشن کے پاس واقع ہے بہت کم لوگوں کو علم ہو گا کہ یہ کون تھا۔ یہ ۱۸۵۷ میں کمشنر پنجاب کے سیکرٹری تھے۔ اس سے پہلے یہ افغانستان میں بھی تعینات رہ چکے تھے۔ لاہور میں انہوں نے ریونیو ریکارڈ کے حولے سے بہت کام کیا۔ لاہور میں جدت لانے میں انکا ایک اہم کردار ہے۔ ریونیو کے حوالے سے انکے کام کو اب بھی سراہا جاتا ہے۔ بلکہ اسکی تقلید بھی کی جاتی ہے۔ لاہور میں کاروبار کو ترقی دینے کے حوالے سے بھی انکی گراں قدر خدمات ہیں۔ غلہ منڈی پہلے امرتسر میں ہوتی تھیاسے لاہور منتقل کرنے کے سلسلے میں برانڈ رتھ کی خدمات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ غلہ منڈی لاہور منتقل ہونے سے لاہور خوب پھیلا پھولا اگرچہ اس روڈ کا نام بعد میں تبدیل کر دیا گیا لیکن نئے نام سے لوگ بہت ہی کم واقف ہیں اور اکثریت اسے برانڈ رتھ روڈ ہی کہتے ہیں۔ اسی طرح کئی اور ناموں کو بھی تبدیل کیا گیا ہے۔



About the author

hadilove

i am syed hidayatullah.i have done msc in mathematics from pakistan.And now i am a bloger at filmannex.and feeling great

Subscribe 0
160