ابو علی الحسن ابنِ عبداللہ ابنِ سینا

Posted on at


بخارا کے امیر نوح بن منصور سامانی شدید پیمار تھے۔ شاہی حکیم علاج کر کے ناکام ہو چکا تھا۔ دوردراز سے آنے والے دوسرے طبیب بھی کوشش کرچکے تھے، مگر سلطان کی بیماری کا علاج نہیں ڈھونڈ پائے تھے۔ ایسے میں ایک کم سن اور غیر معروف حکیم نے دعوٰی کیا کہ وہ سلطان کا علاج کر سکتا ہے۔ لوگوں نے اس کا مذاق اُڑایا کہ بڑے بڑے حکیم کچھ نہیں کر سکے تو یہ کیا کرے گا۔ لیکن ایک سمجدار آدمی نے اسے امیر نوح کی خدمت میں پیش کردیا۔ اب اللہ کی قدرت دیکھیں ، امیر کو اس نوجوان حکیم کے علاج سے آرام آگیا۔ امیر نے خوش ہوکر اسے منہ مانگا انعام دینا چاہا، لیکن اس نے جو انعام طلب کیا اس نے سب کو حیران کر دیا۔ اس نے شاہی لائبریری کے مطالعے کی اجازت طلب کی۔ سلطان نے بخوشی اجازت دے دی۔ اصل میں اس نوجوان حکیم نے سن رکھا تھا کہ شاہی لائبریری میں بہت سی نایاب کتابیں موجود ہیں۔ اس نوجوان کا حافظہ بہت تیز تھا ، اس نے جلد ہی پوری لائبریری میں سے اپنے کام کی معلومات حاصل کر کے انھیں ذہن نشین کر لیا اور پھر اکیس سال کی عمر میں اس نے پہلی کتاب لکھی۔ اس نوجوان حکیم کو دنیا ابن سینا کے نام سے جانتی ہے۔

ابن سینا ۹۸۰ ء میں بخارا (ترکستان ، موجودہ ازبکستان کا مشہور شہر) کے قریب قصبہ افشنہ میں پیدا ہوئے۔ ابن سینا کی پیدائیش کے وقت ان کے والد ایک علاقے کے گورنر تھے۔ بخارا میں ابن سینا نے دس برس کی عمر میں قرآن حفظ کرلیا۔ کم عمری ہی میں انھوں نے اس دور کے سا ئنسی علوم میں مہارت حاصل کرلی۔ ابن سینا نے ایک ہندوستانی سبزی فروش سے حساب سیکھا اور حنفی علم اسماعیل زاہد سے فقہ کی تعلیم پائی۔ منطق ، فلسفہ ، ہندسہ (جیومیٹری) اور فلکیات کی تعلیم انھوں نے عبداللہ ناتلی سے حاصل کی ، تاہم شاگرد تھوڑے ہی دنوں میں استاد سے سبقت لے گیا۔ انھیں استاد سے زیادہ مرتبہ اور مقام ملنے لگا۔

ابن سینا کا خصوصی شعبہ طب تھا۔ انھوں نے خوشیار نامی معالج کی زیر نگرانی طب کا مطالعہ کیا اور علم طب میں شان دار مہارت حاصل کی۔ اٹھارہ سال کی عمر میں وہ ایک مانے ہوئے طبیب بن چکے تھے۔ انھوں نے علاج کے نت نئے طریقے دریافت کیے۔ وہ لکھتے ہیں

طب ریاضی اور مابعد الطبیعیات کی طرح مشکل سائنس نہیں، چنانچہ میں نے اس میں بہت ترقی کی۔ میں ایک عمدہ طبیب بن گیا اور آزمودہ نسخے استعمال کر کے مریضوں کا علاج کرنے لگا۔

ابن سینا کی شہرت دور دور تک پھیل گئی۔ وہ مستحق مریضوں کا مفت علاج کرتے تھے۔

ابن سینا ۲۲ سال کے تھے جب ان کے والد وفات پاگئے۔ ابن سینا نے سلطان محمود غزنوی (۹۹۹ ء تا ۱۰۳۱ء) کی طرف سے غزنی آنے کی دعوت رد کردی اور بخارا سے اورگنج (خوارزم) چلے گئے جہاں علی ابن میمون نے ان کا ماہوار وظیفہ مقرر کردیا۔ وظیفہ بہت کم تھا ، چنانچہ ابن سینا خوارزم چھوڑ کر مرو(خراسان) سے ہوتے ہوئے نیشا پور چلے آئے۔ خوارزم سے روانہ ہونے سے پہلے ابن سینا اپنے عہد کے چار بڑے علما ابوریحان البیرونی (سائنس دان اور ماہر فلکیاتابو نصر عراقی (ریاضی دانابو سہل مسیحی (فلسفی) اور ابو سعید ابوالخیر خمار(طبیب)سے مل چکے تھے۔ نیشا پور سے انھوں نے گورگان (جرجان) کی راہ لی۔ یہیں انھوں نے القانون فی الطب لکھنے کا آغاز کیا۔ پھر ہو امیر مجدُالدولہ کے پاس رَے چلے گئے۔ یہاں رہ کر انھوں نے ۳۰ کتابیں تصنیف کیں۔ آخر کار ابن سینا قزوین سے ہوکر ہمدان پہنچ گئے جہاں شمسُ الدولہ حکمران تھا۔

ابن سینا نے القانون فی الطب اور الشفا جیسی شہرۂ آفاق کتابیں لکھیں۔ القانون سترھویں صدی تک یورپ کے طبی اداروں کے نصاب میں شامل رہی۔ ابن سینا نے کل ۴۵۰ کتابیں تصنیف کیں جن میں سے ۲۴۰ کتابوں کے آثار ملتے ہیں۔

اپنی زندگی کے آخری دنوں میں ابن سینا قولنج کی بیماری میں مبتلا ہو گئے۔ اپنے علاج سے انھیں افاقہ توہوگیا مگر ایک اور جنگی مہم میں شرکت کے نتیجے میں مرض لوٹ آیا۔ وہ بڑی مشکل سے ہمدان پہنچے۔ دوستوں نے مکمل آرام کا مشورہ دیا۔ مگر انھوں نے انکار کردیا اور یہ کہا: میں لمبی عمر کے بجائے مختصر عمر پسند کرتا ہوں۔ جب انھیں یقین ہو گیا کہ اب ان کا آخری وقت قریب ہے تو انھوں نے اپنا سارا سازو سامان غریبوں میں بانٹ دیا، علام آزاد کردیے اور ہر تین دن میں قرآن ختم کرنے لگے۔ ان کایہ معمول وفات تک جاری رہا۔ آخر کار ۱۰۳۸ء میں رمضان کے مہینے میں ابن سینا انتقال کر گئے۔ اس وقت ان کی عمر ۵۸ برس تھی۔ و ہمدان ہی میں دفن ہوئے۔



About the author

muhammad-haneef-khan

I am Muhammad Haneef Khan I am Administration Officer in Pakistan Public School & College, K.T.S, Haripur.

Subscribe 0
160