حضرت جنید بغدادیؒ ’’حصہ سوم‘‘

Posted on at


 

تصوف کا علمی دور ۔ حضرت جنید بغدادیؒ کا زمانی تیسری ہجری کا وہ علمی دور ہے جس مین تصوف نے ایک جداگانہ مسلک کی حثیت پائی آپ ہی کے زمانے میں علم تصوف پر تالیفات و تصنیفات کا اغاز ہوا آپؒ  ہی کے زمانے کہا گیا کہ علم کے دو پہلو ہے ایک ظاہری دوسرا باطنی ، ظاہری سے مراد شریعت اور باطنی سے مراد طریقت اسی امناے میں یہ رائے بھی قائم کی گئی کہ باطنی علوم سب سے پہلے جناب محمد رسول اللہ سے حضرت علیؓ نے حاصل کیے

کہا گیا ہے کہ شریعت سے انسان حقیقت پاتا ہے اور طریقت سے معرفت حق حاصل ہوتی ہے تصوف کے بارے میں حضرت جنید بغدادیؒ فرماتے ہیں ’’ ہر برے اخلاق سے علیحدہ رہنا اور اچھے اخلاق اختیار کرنا تصوف ہے‘‘ تصوف کا علم کتاب و سنت سے باہر نہیں جس نے قرآن مجید نہیں پڑھا وہ تصوف میں بات کرنے کا اہل نہیں ، اہل تصوف کا سب سے بڑا سرمایہ فقر ہے ، فقر تمام شکلوں کو دل سے خالی کر دینے کا نام ہے وہ اہل فقر سے مخاطب ہو کر فرماتے ہیں ، اے فقرا تم اللہ تعالی کی معیت سے ہی پہچانے جاتے ہو اور اسی سبب سے تمھاری عزت کی جاتی ہے

جتنے بھی صوفیاء کرام گزرے ہیں ان سب نے اللہ تعالی اور اسکے رسولﷺ کی اطاعت کی مختصر یہ کہ تابعین و تبع تابعین کے دور کو قدیم صوفیاء کا دور کہا جاتا ہے اور اس زمانے کے بزرگان دین علم و شریعت میں کامل تھے

مگر جن صوفیوں نے تصوف کے نام پر اپنے آپ کو علم وعمل سے بیگانہ کیا در حقیقت انہوں نے اولیا کرام کی سیر کا مطالعہ نہیں کیا تصو ف کے بارے میں ابو بکر طمتانیؒ کہتے ہیں ’’ راستہ کھلا ہو اہے اور کتاب و سنت ہمارے سامنے موجود ہے

بایزید بسطامیؒ کہتے ہیں’’ اگر کسی شخص کو دیکھو کہ اسے اتنی کرامتیں دی گئی ہیں کہ وہ ہوا مین اڑتا ہے تو اس سے دھوکا نہ کھاو یہاں تک کہ دیکھ لو کہ وہ امرو نہی اور حدود شریعت میں کیسا ہے

سری سقطیؒ کہتے ہیں ’’ جس شخص نے ایسی باطنی حقیقت کا دعوی کیا جس کی تردید شریعت کے ظاہری حکم سے ہوتی ہے اس نے غلطی کی ‘

‘    



About the author

sss-khan

my name is sss khan

Subscribe 0
160