پاکستان کا نظام تعلیم اور ذریعہ تعلیم ؟حصہ دوئم

Posted on at


600 قبل مسیح تک کوشش ہوئی کہ زبان کو منظم کر کے ایک حیثیت دے دی جائے اس تحریک کو کامیاب بنے کے لئے اصول پہ رکھا گیا کہ مقامی تعقبات سے الگ ہو کر صرف ایسی زبان ٹکسانی مانا جائے جو جو سب جگہ رائج ہوں ، اس اصول پرکار بند ہوکر لوگ خاص ٹکسانی زبان استعمال کرنے لگے اور یہ زبان پاک صاف ہو کر سنسکرت کہلائی ، سنسکرت کو بڑا عروج ہوا مگر ترقی کے ساتھ سات اس میں اتنی زیادہ جدت آگئی کہ وہ عوام سے الگ ہو کر خاص طبقے کی چیز ہو کر رہ گئی اور یہی سبب اس کے زوال کا بھی ہوا، ہندوستان کی عوام کی زبان شروع ہی سے ایک مخلوط زبان تھی تھوڑے سے فرق کے ساتھ مختلف خطوں میں مقامی زبانیں رائج تھیں اور برابر چلتی رہیں ، ان مقامی زبانوں کو پرا کرت کہتے تھے ایک پراکرت کی ادبی شکل کا نام پا لی ہے ۔

پالی کو بدھت مت کے ہاتھو ں عروج ہوا سنسکرت کے ساتھ ساتھ پراکرت کا بھی پہلو بہ پہلو ارتقاء ہوتا رہا سنسکرت کی طرح بعض پراکرتیں بھی کبھی کبھی اتنی ادبی حیثیت اختیار کر لیتی کہ عوام ان کے استعمال سے گریز کرنے لگتے تھے اور پھر اپنی ملی جلی زبان کو ایک خاص انداز میں پیش کر کے ایک نئی زبان تیار کر لیتے تھے جس میں وہ اپنا مفہوم آسانی سے ادا کر سکیں اس طرح ایک نئی زبان پھرنش وجود میں آگئی

اگر دیکھا جائے تو ہمارے ملک میں آپس کی میل جول کے لئے اس زبان کو استعمال کرنا ناممکن ہے زبان صرف علم اور ٹیکنالوجی کا ذریعہ نہیں یہ ایک وطنکے رہنے والوں کے لئے آپس میں تبادلہ خیال کا ذریعہ بھی ہے اپ پھرنش عوام کی رہنمائی میں بڑھتی رہی ۔ بالاخر اس میں زندگی کے آثار دیکھ کر تعلیم یافتہ طبقہ بھی اس کی طرف مائل ہوا ۔

ہندوستان کی دوسری زبانوں نے بھی آپ بھرنش کا اثرلیا جب 712 ء میں محمد بن قاسم ہندوستان آئے اور سندھ پر قبضہ کیا اور حکومت بنا لی تو اس کے بعد اپ بھرنش میں عربی اور فارسی کے ملاپ سے یہ فائدہ ہوا کہ لوگ ایک دوسرے کے قریب تر ہوتے گئے اس نئی زبان کا دائرہ اتنا وسیع تر ہوتا گیا یہاں تک کہ فارسی اور ترکی کے شعراء ہندوستانی زبان میں بھی شعر کہنے لگے ۔



About the author

shaheenkhan

my name is shaheen.i am student . I am also interested in sports.I feel very good being a part of filmannex.

Subscribe 0
160