ھاۓ رے ایم بی بی ایس(میڈیکل سٹوڈنٹس کے لیئے)

Posted on at


لگتا ہے علامہ اقبال کو بھی اندازہ ہو گیا تھا۔ کہ مستقبل قریب میں بنوں میں ایک میڈیکل کالج بننے والا ہے۔ اور بہت سے قسمت کے مارے یہاں کا رخ کریں گے۔ تبھی تو کہتے ہیں” خدا کے بندے تو ہیں ہزاروں”بنوں میں میں پھرتے ہیں مارے مارے” اس سے پہلے اس جگہ کا نام شائد نقشے پر دیکھا ہو گا یا زیادہ سے زیادہ اخبار کی کسی سرخی مین۔ ہماری تو جدی پشتی میں بھی کوئی اس طرح نہیں آٰیا۔

خیر سٹودنٹس کا یہاں آنا بھی حکمت سے خالی نہ ہو گا۔ میڈیکل تو اور کالجوں میں بھی پڑھایا جاتا ہے۔ مگر یہاں سٹوڈنٹس نے میڈیکل کے علاوہ زندگی گزارنے کے دیگر اطوار بھی سیکھے۔ مثلاً بغیر پانی کے مسلسل چار پانچ دن تک زندہ رہنا،بغیر بجلی کے شب و روز،بلیوں اور کتوں سے ڈر کا خاتمہ،جون جولائی میں گرمی میں تپتی سڑکوں پر بیٹھ کر نعرے لگانا وغیرہ وغیرہ۔ سرد علاقوں سے تعلق رکھنے والے سٹوڈنٹس نے گرمی کا اصل مزہ یہاں چکھا ہے۔ اب تو گمان ہوتا ہے کہ دوزخ میں بھی اڈجسٹ کر لیں گے۔ اب تو جس دن بجلی نہ جاۓ ایسا لگتا ہے کوئی کمی ہے۔ پانی ختم نہ ہو جاۓ تو دل اداس ہو جاتا ہے۔ جب تک کوئی مچھر نہ کاٹ لے ہمیں نیند نہیں آتی۔ اور سب سے بڑھ کر شکرانہ نعمت مریل پنکھوں کی گرم گرم ہوا پر بھی خدا کا شکر ادا کرتے ہیں۔

طبیعت میں اس عجزو انکساری کا سہرا تو یقیناً بنوں کے سر ہی جاتا ہے۔ مزید یہاں کے سٹوڈنٹس ڈاکٹر بنیں نہ بنیں مستقبل کے بہترین سیاست دان ضرور بن جاۓ گے۔ ہڑتالوں اور جلسے جلوسوں اور ان میں ہونے والے نعروں اور تحریر و تقریر کا جو فن سٹوڈنٹس نے سیکھا ہے سائد ہی کسی کالج والوں کو حاصل ہو۔



About the author

160