روشنیوں کا شہر یا دہشت گردی کا گھر جی ہاں میں بات کر رہا ہوں کراچی شہر کی جو کہ گزشتہ چند سال پہلے روشنیوں کا شہر کہلاتا تھا جہاں ہر سو روشنی ہی روشنی ہوتی تھی اور لوگ رات بھر بازاروں اور ہوٹلوں میں نظر اتے تھے کوئی بھی خوف خطرہ نہ تھا ہر کوئی بے فکر اور اپنی مرضی سے زندگی بسر کرتے تھے لیکن ان چند سالوں میں کراچی کا نقشہ ہی بدل گیا
اب لوگ گھروں سے بازار تک جانے میں بھی ڈرو خوف محسوس کرتے ہیں کراچی میں روز بروز جرائم بڑھ رہے ہیں اور لوگ ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہو گئے ہیں حالانکہ چند سال پہلے ایسا نہیں تھا اور لوگ ایک دوسرے کے ساتھ اچھے طریقہ سے ملتے اور اپنے دوستوں کے ساتھ گھومنے جاتے اور گھر والوں کو پرواہ بھی نہ ہوتی کیوں کہ اس وقت کوئی خطرہ نہ تھا اور نہ ہی دہشت گردی کا کوئی نام و نشان تھا
کچھ ہی عرصہ میں کراچی میں دہشت گردی اتنی بڑھ گیی کہ اب ہر کوئی گھر سے باہر جانے سے بھی ڈرتا ہے اور اگر کوئی باہر چلا جائے تو اس کا کچھ پتا نہیں ہوتا کہ زندہ سلام لوٹ کر ایے یا نہ اور گھر والے بھی دعائیں مانگتے رہتے ہیں جب تک کہ ان کا بچہ گھر واپس نہ ا جائیں جب گھر لوٹ اتے ہیں تو تب جا کر ان کے گھر والے سکھ کا سانس لیتے ہیں
چھوٹے بچوں سے لے کر بوڑھوں اور نوجوانوں تک خوف میں جی رہے ہیں اور کوئی بھی انسان محفوظ نہیں ہے حکومت تو بڑے بڑے وعدے کرتی ہے کہ کراچی میں امن بنائیں گے لیکن کچھ نہیں کر پاتی اور رینجر پولیس تو الٹا اپنا نام بنانے کے لئے بیگناہ لوگوں کو مار کر دہشت گردی کا نام دیتی ہے میرا پچھلے دنوں ایک رینجر کے نوجوان سے بات ہوئی اس نے ١٠ سال نوکری کی اور چھوڑ دی جب میں نے اس سے پوچھا کہ کیوں نوکری چھوڑ دی تو اس نے مجھے بتایا کہ ان کے افسران ہم سے بیگناہ لوگوں کو مروا کر دوسرے دن میڈیا کو بتاتی ہے کہ ہم نے دہشت گرد مارے ہیں صرف اور صرف اپنا نام بنانے کے لئے اور اس نے مجھے بتایا کہ جب بھی کوئی ایسا بیگناہ انسان مارتے تو پوری رات نیند نہ اتی اور ذہین میں ووہی بیگناہ لوگوں کی شکل آتی اس لئے نوکری ہی چھوڑ دی
اس کے علاوہ بھی آپ دیکھ لیں روز بینک لوٹے جاتے ہیں اور گھروں میں بھی ڈکیتیاں کی جاتی ہیں اور معصوم بچوں کا بھی قتل کیا جاتا ہے جن کا کوئی قصور بھی نہیں ہوتا ایک سال پہلے کی بات ہے کہ ہمارے کوئی جاننے والے ہیں کراچی ناتا خان گوٹھ میں ان کے پڑوس میں ایک گھر میں ایک بچی اور ایک بچا بچے کی عمر ڈیڑھ سال تھی ان ظالموں کے اس معصوم بچے کا گلہ دبا کر مار دیا اور اس کی بھن کو بیہوشی کے ٹیکے لگاے اور بوہت بیدردی سے مارا لیکن اس بچی کی زندگی تھی وو بچ گیی لیکن اس کا چھوٹا بھائی نہ بچ سکا اس کی ماں اب بھی اپنے بچے کو یاد کر کر کے روتی ہے اور یہی کہتی ہے کہ آخر اس معصوم بچے کا قصور کیا تھا ایسے اور بھی بوہت سے واقعیات ہیں
کراچی میں بھتہ خور بھتا نہ ملنے پر دوسروں کو بیگناہ مار دیتے ہیں حالانکہ کچھ سال پہلے تک ہمیں یہ بھی نہیں پتا ہوتا تھا کہ یہ بھتہ ہوتا کیا ہے اور جب بھی آپ نیوز چنیل لگا کر دیکھیں کوئی ایسا دن نہیں ہوگا جس دن کراچی میں دہشت گردی کی خبر نہ سننے کو ملے اور ہماری حکومت خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے کراچی میں لوگ اب سمندر پر جانے سے بھی ڈرتے ہیں اور بوہت کم لوگ ایسے ہیں جو کہ ایک نارمل زندگی گزار رہے ہوں زیادہ تر لوگ گھروں میں ہی محصور ہو کر رهتے ہیں اللہ کراچی پر رحم کرے تاکہ کراچی پھر سے روشنیوں کا شہر بن جائے جہاں کوئی بھی خوف نہ ہو جہاں ہر کوئی پہلے کی طرح ہنسی خوشی زندگی گزار سکے اور حکومت بھی اس دہشت گردی کو ختم کرنے پر زور دے تا کہ کراچی کے عوام سکھ کا سانس لی سکیں الله کراچی والوں کی مدد فرمائے اور ظالموں کو سزا دے امین