مہنگاھی کا سیلاب اس قدر بڑھ گیا ہے کہ تین وقت کی روٹی کھانے والے ایک وقت پر آگہے ہیں۔ کہی سو کو تو وہ بھی میسر نہیں آج کل سرکاری ملازمین کی تنخواہیں تو قدر حال گزارہ لاہق ہیں جبکہ پراہیویٹ اور مزدور جو تنخواہ لیتے ہیں اس سے ایک وقت کی روٹی پوری کرنی جوھے شیر لانے کے برابر ہے۔ اتنی قلیل تنخواہ کو وہ کہاں کہاں خرچ کریں اس کا حساب تو کوہی ریاضی دان بھی نہیں دے سکتا اور نہ ہی کوہی سیاستدان دے سکتا ہے۔ اوپر سے ڈھنڈورا پیٹا جاتا ہے کہ کرپشن ختم کی جاہے۔
صاف شفاف نظام اگر لانا ہے تو ملازمین کی تنخواہ کم از کم ١۰ ہزار کی جاہے اور پراہیویٹ اداروں کو خلوص نیت چیک کرنا چاہیے، تب جا کر کرپشن، بے ایمانی ختم ہو سکتی ہے۔ آج ہر طبقہ فکر معاش میں سرگرداں ہے ہر روز کوہی نہ کوہی کسی نہ کسی طرح اپنی زندگی سے پیچھا چھڑانے کی تگ و دو میں لگا ہوا ہے۔
ہم تو حالات کے مارے ہوہے ہیں، کیا کریں ہم بھی کہ تو رزق کماتے ہیں بڑی مشکل سے جمہوری حکومت نے عوام کو بچہ جمہورا بنا دیا ہے عوام کب تک سسکتی ہوہی زندگی گزارے گی ہر روز بجلی، گیس، پیٹرول، روزمرہ استعمال کی اشیاء میں نان بیک اضافہ اور اوپر سے جمہوریت کا نعرہ إ عوام پر اثر نہیں پڑے گا عوام کو قربانی دینی پڑے گی تو پچھلے ٦۵ سالوں سے قربانی ہی دے رہی ہے۔ مگر جو قربانی دینے کی استطاعت رکھتے ہیں انہوں نے کبھی قربانی دینے کا سوچا بھی ہے؟ نہیں اگر حکومت وقت بےبس، لاچار عوام کیلیے قربانی دے تو ضریب اپنے پیٹ کیلیے ناجاہز زراہع استعمال نہیں کرے گا۔ ایک باپ یہ کبھی برداشت نہیں کر سکتا کہ اسکے بچے بھوکے سوجاہیں اور امراء کے بچے تو کیا کتے بھی پیٹ بھر کے کھاہیں اور اعلٰی عزا کھاہیں۔