تاج محلعمارت مغلیہ دور حکومت سے بہت پہلے موجود تھی اور دراصل یہ ایک ہندو مندر تھا شاہ جہاں نے اس کے مالک جے سنگھ سے لے کر اس پر قبضہ کر لیا اور یوں اس عمارت کو اپنے نام سے منسوب کر دیا۔ پی این روک، جو کہ ایک غیر مقبول اور نام نہاد مورخ ہے اسنے ایک کتاب تاج محل سچی کہانی کے نام سے لکھی ہے۔ اسنے ۱۰۹ شہادتوں کے ذریعے ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ تاج محل ایک ہندو مندر ہے اور اسے راجہ پرم دیو نے ۵۰۰ سو سال قبل ایک ویدک مندر کی حثییت سے تعمیر کرایا تھا۔
اگر دیکھا جاۓ تو اہل برطانیہ اور فرقہ وارانہ ذہنیت کے حامل لوگوں کا نقطہ نظر انکے اس ذہن کی عکاسی کرتا ہے۔ کہ جو نہ صرف تنگ نظری کا چکار ہے بلکہ حقیقت سے بھی منکر ہے۔ انگریز جو کہ اہل ہندوستان کو شکست دے کر اقتدار میں آۓ تھے ان میں رعونت اور احساس برتری تھی۔ جسکی وجہ سے وہ ہندوستان کی ہر شے کو کم تر اور حقیر گردانتے تھے۔ اور یہ یقین رکھتے تھے کہ ہندوستانی اس قسم کی عمارتوں کی تعمیر کی اہلیت نہیں رکھتے ہیں۔ اسلیئے انہوں نے اپنی نسلی برتری کے پیش نظر اسکے ڈیزائن کے بارے میں یہ فیصلہ دے دیا کہ یہ ایک یورپی ذہن کی پیداوار ہے۔ اسکا سیدھا سادہ مطلب یہ تھا کہ ہندوستانیوں میں کسی چیز کی تخلیق کرنے کی صلاحیت تو نہیں ہے۔ مگر وہ اتنا ضرور کر سکتے ہیں کہ اگر انہیں کوئی منصوبہ بنا کر دیا جاۓ تو وہ اس پر عمل کر سکتے ہیں۔ اس لحاظ سے اہل ہندوستان اچھے کام کرنے والی رعایا ہو سکتے ہیں۔ کہ جو اہل اقتدار کے احکامات کی پیروی کریں۔ انگریزوں کے اس نقطہ نظر میں ہندو اور مسلمان دونوں شامل ہیں۔ وہ دونوں کو ہندوستانی گردانتے ہوۓ انہیں ایک ہی نظر سے دیکھتے ہیں۔
اسکے برعکس فرقہ وارانہ ہندو مغلوں کو تاج محل اور اسکی تعمیر سے بالکل محروم کر دیتے ہیں۔ اور انہیں ہندوستان میں غیر ملکی اور قابض قرار دیتے ہیں ان کے تمام کارناموں سے انکار کر دیتے ہیں۔ انکی دلیل ہے کہ مسلمانوں نے جہاں ایک طرف ہندوستان پر قبضہ کیا اسی طرح سے دوسری طرف اسکی تاریخی عمارتوں پر بھی قابض ہو کر انہیں اپنا لیا۔
بہر حال اس متنازعہ صورتحال میں تاج محل نے بہت سے نشیب و فراز اور اتار چڑھاؤ دیکھے۔ اپنی تعمیر کے بعد اسکی اس وقت تک مناسب دیکھ بھال ہوتی رہی جب تک کہ مغل بادشاہوں کے پاس زرائع تھے۔