صاحب قرآن کا استدلال

Posted on at


صاحب قرآن کا استدلال



قرآن کا موضوع عھدی للناس و بینت من الھدی والفرقان یعنی لوگوں کا رہنما اور ہدایت کرنے والا اور حق و باطل میں فرق کرنے والی دلیل ہے۔  اس منصب کو صاحب قرآن خاتم المرسلینﷺ  نے بوجوہ احسن فطری طریقہ اختیار کر کے پایہ تکمیل تک پہنچایا۔ ایک ایسا انداز جو اپنے اندر معقولیت لئے ہوئے ہے اور جسے ہر دماغ وجدانی طور پر پا لیتا ہے اور قبول کر لیتا ہے اس کے سامنے سوائے تسلیم کے اور کوئی چارہ نہیں رہتا۔ یہ خود انسان کی فطرت سے ہی انسان پر حجت لاتا ہے اور اس کی ہر دلیل انسان کے نہاں خانہ دل میں دستک دے کر اس کے فطری وجدان کو بیدار کر دیتی ہے۔



 نبوت کے درجہ پر فائز ہونے کے بعد تقریباً ہر نبی مرسل کے لوگوں کے طنز و تعریض اور شکوک و شبہات کا شکار ہونا پڑا۔ انبیائے کرام کی زندگیاں پر شاہد ہیں۔ ان حجتوں سے عہدہ برآ ہونے کے لئے انبیائے سابقین معجزات کا سہارا لیتے رہے۔  کبھی پہاڑوں کو چلایا۔ اور کبھی مردوں کو زندہ کر دیا۔ کبھی ید بیضاء سے زمانہ کی آنکھیں خیرہ کر دیں اور کبھی اپنے عصا سے دریاوں کو پایاب کر دیا۔ کبھی پتھروں سے چشمے بہا دیئے اور کبھی جبل طور کو سروں پر معلق کر کے دکھا دیا لیکن ان معجزوں سے کتنے فیض یاب ہوئے ۔ توحید و رسالت کتنوں کی زندگی کا اوڑھنا بچھونا بنا۔ آسمانی تعلیم کی تبلیغ و اشاعت کو کتنی وسعت حاصل ہوئی؟  حقیقت یہ ہے کہ ان معجزات اور نشانیوں کے باوجود بہت کم ایمان کی دولت سے بہرہ مند ہوئے بلکہ صاحب معجزہ کی تکزیب میں اور بھی بڑھ گئے اور معجزوں کو جادو گری کا کرشمہ کہہ کر فارغ ہو گئے۔ اسی طرح حضور انور محمد ﷺ  کو بھی ان سے واسطہ پڑا۔  آپ  نے بجائے معجزوں کے عقل اور فطرت کے مطابق ان اعتراضات کے جوابات دیئے۔ مثلاً انکار قیامت اور حیات بعد الموت کے بارے میں مشرکین حجت پیش کرتے ہیں کہ من یُخی العظام و ھی رمیم یعنی ان بوسیدہ ہڈیوں میں دوبارہ کو جان ڈال سکتا ہے۔ آنحضرت ﷺ نے حضرت مسیح علیہ السلام کی طرح کسی مردہ کو قم باذن اللہ کہہ کر سامنے نہیں کھڑا کر دیا بلکہ ان کی عقل و فطرت کے مطابق فرمایا یحییھا الذی انشاھا یعنی ان ہڈیوں میں وہی جان ڈالے گا جس نے اس سے پہلے کہ ان ہڈیوں کو وجود بھی نہ تھا پیدا اور زندہ کیا تھا۔



پھر دیکھیئے جب مشرکین دعوئے رسالت پر کذب و افتراء کا اتہام لگاتے ہیں تو آپ کسی خرق عادت کا مظاہرہ نہیں کرتے بلکہ ان کے تجربے مشاہدے اور قول کو اس طرح معقولیت سے چیلنج کرتے ہیں کہ ان سے کوئی جواب نہیں بن پڑتا فرمایا فقد لبثت فیکم عمرا من قبلہ افلا تعقلون یعنی میں نے تمھارے ساتھ عمر کا کافی حصہ گزارا ہے کچھ عقل سے کام لو۔


مراد یہ کہ ساری عمر تو تم نے مجھ پر اعتماد کیا۔ میری زندگی تم ہی لوگوں میں گزری ہے۔  تم مجھے ہمیشہ صادق و امین کہتے رہے۔ اور کبھی کزب و افتراء کا شبہ تک نہیں کیا۔ یہ آج کیوں یک بیک مفتری علی اللہ بتا رہے ہو۔ یہ فطری دلائل ایک طرف اگر قطعیت میں بے مثال ہیں۔ تو دوسری طرف سہل الفہمی میں اپنا جواب نہیں رکھتے۔


مشرکین مکہ نے نبوت و رسالت کی تصدیق کے لئے معجزات دکھانے کا مطالبہ کیا۔  بعض نے کہا کہ خدا اور فرشتوں کو ہمارے سامنے لا کھڑا کرو اور دوسروں نے کہا کہ ہمارے لئے زمین سے چشمہ جاری کرو۔ باغات و نہریں بہا دو یا اگر تم اللہ کے نبی ہو تو ہم پر کوئی آسمان کا ٹکرا گرا دو۔ اس طرح یہ بھی کہا کہ ہمارے لئے سونے چاندی کے گھر بنا کر دکھاؤ وغیرہ لیکن آپ نے ان بے معنی فرمائشوں کا یہ جواب دیا۔


سبحان ربی ھل کنت الا بشرارسولا۔


اس کے علاوہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ولو ان قرانا سیرت بہ الجبال او قطعت بہ الارض او کلم بہ الموتی ۔ یعنی اگر کسی قرآن کے ذریعے سے پہاڑ ٹل جائیں یا زمین طے ہو جائے یا مردے بول اٹھیں ۔ جب بھی ایمان نہ لانے والے کفر پر ہی اڑے رہیں گے۔



خاتم المرسلین ﷺ  کے ہاتھوں بعض معجزات کا ظہور ہوا۔ لیکن آپؐ نے اپنی نبوت و رسالت کے لئے انہیں کبھی بنیاد نہیں بنایا۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں آپؐ کے ان خارق القمر کا تذکرہ فرمایا تو اس لئے کہ اس کا ظہور کسی سے ہوا نہ ہو گا۔


معجزہ یا خرق عادات کا ظہور مقصود بالذات شے نہیں۔ بلکہ یہ وقتی معاونت ہے  تا کہ لوگ سیدھی راہ کو اختیار کریں۔  اس کا اثر دیر پا نہیں ہوتا۔ اور ایک مخصوص وقت تک اور حاضر لوگوں تک محدود رہتا ہے۔ چنانچہ جن لوگوں نے ان کے امتی یا ہم عصر ہونے کے باوجود معجزات نہیں دیکھے یا وہ افراد و اقوام جو بعد میں آئیں۔ وہ کیسے معجزات کو نبوت کی تصدیق کا معیار بنا سکتی ہیں۔ چنانچہ اسی مقصد کے پیش نظر خدائے بزرگ و برتر نے خاتم المرسلین ﷺ  کو ایک زندہ و پائندہ معجزہ عنایت فرمایا۔ جو اپنی گوناگوں خوبیوں کی بدولت اس دنیائے فانی کے مکینوں کو ابد آلاباد تک رہنمائی اور ہدایت بخشا رہے گا اور یہ عطائے ربانی قرآن پاک ہے اللہ تعالی کا ارشاد ہے جس کا ترجمہ ہے



اے پیغمبر آپ فرما دیں۔ کہ سارے جن و انس متفق ہو کر بھی چاہیں کہ اس جیسا قرآن بنا لائیں۔ تو نہیں لا سکتے اگرچہ وہ ایک دوسرے کے مددگار کیوں نہ بن جائیں۔


چودہ سو سال گزر جانے کے باوجود اس چیلنج کا کوئی نہیں جواب دے سکا حالانکہ اس دور میں بڑے بڑے نامور خطیب، قصحائے عرب اور شعرائے نامدار موجود تھے۔  قریش مکہ نے عتبہ بن رییع کو آنحضرت ﷺ کے پاس بھیجا کہ وہ اپنے شعر کے جادو سحر اور کہانت کے اثر سے قرآن پاک کی آواز کو بے اثر کر دے۔  حضور انورﷺ  نے اس کے سامنے سورہ فصلت کی آیات کی تلاوت شروع کر دی۔  تو چند آیات کریمہ سننے کے بعد عتبہ نے آپ کو قرابت کا واسطہ دے کر بس کرا دیا۔  عتبہ نے اہل قریش کو یہ جواب دیا " تم جانتے ہو کہ میں سب سے زیادہ دولت مند ہوں۔۔ مجھے کوئی لالچ نہیں دیا جا سکتا۔  لیکن محمد ﷺ نے میرے جواب میں جو کلام پیش کیا وہ نہ شعر تھا نہ کہانت اور نہ جادو۔ میں نے ایسا کلام کبھی نہیں سنا"


نجاشی نے قرآن سن کر کہا


" خدا کی قسم یہ کلام اور انجیل دونوں ایک ہی چراغ کے پر تو ہیں" قرآن کی تاثیر کا یہی اثر تھا کہ مشرکین نہ صرف خود بلکہ نوواردان شہر کو بھی قرآن سننے سے منع کرتے تھے۔ یہاں تک کہ کانوں میں روئی ٹھونس لیتے تھے۔  لیکن اس صوت ہادی اور نغمہ سرمدی کے سامنے سب کی زبانیں گنگ ہو گئیں۔



حق یہی ہے کہ ایسے با عظمت نبی ﷺ کے لئے ایسے ہی زندہ اعجاز چاہئے تھا حالانکہ آپ امی محض تھے۔ کسی ظاہری علم و فن سے آپ نے اکتساب نہیں کیا آپؐ  کے ہم وطن اس بات سے بخوبی آگاہ تھے۔  ظاہری مروجہ تعلیم کے عیب سے آپ کا سینہ کبھی داغدار نہیں ہوا لیکن اس کے باوجود آپؐ نے ایک ایسی مکمل اور جامع کتاب پیش کی جس میں ان تمام اصول  مزاہب کا ذکر ہو۔ جن پر دنیا کی مہذب قومیں متفق و متحد ہوں۔  سابقہ امتوں کے قصص و حکایات اور تاریخ و قائع کا بیان کرنا جن کے تسلیم کرنے پر علمائے یہود و نصاری مجبور ہو جائیں۔ صخف انبیاء کا علم ہونا اور اہل کتاب کی تحریفات کے پوشیدہ اسرار کا فاش کر دینا وغیرہ قرآن پاک کا معجزہ نہیں تو اور کیا ہے۔  گوتم بدھ نے شہزادوں کی سی تعلیم پائی تھی۔ حضرت موسی علیہ السلام نے فرعون کے محل میں شاہانہ طریق سے تعلیم حاصل کی۔ حضرت عیسی علیہ السلام نے ناصریہ میں پڑھنا لکھنا سیکھا تھا۔ لیکن امی محض ہونے کے باوصف دنیا نے دیکھ لیا کہ بڑے بڑے دانشور حکیم فلسفی عابد اور عالم آپؐ کے آگے پانی بھرتے نظر آتے ہیں۔  مقصد نبوت و رسالت تو نہیں کہ پتھر سے چشمہ بہے یا لکڑی اژدہا بن جائے بلکہ نبوت کی تکمیل  یوں ہوتی ہے کہ مشرک کو توحید پرست ملحدوں کو خدا پرست۔ دشمنوں کو دوست، پتھردلوں کو موم ، گمراہوں کو ہادی و راہنما۔ وحشیوں کو متمدن اور مخلوق خدا کو فخر انسانیت بنا دیا جائے۔ چنانچہ مقصد بعثت کو آنحضرت ﷺ  نے محیر العقول معجزوں سے پورا نہیں کیا۔ بلکہ اس انتہائی اہم فرض کی تکمیل قرآنی تعلیمات کے مطابق اپنے قول و عمل کی صورت میں دنیا کے سامنے پیش کی۔  آپ نے جو کچھ پیش کیا وہ حیرت و استعجاب کے بجائے عقل و فہم اور مزاق سلیم کے عین مطابق ہے اور یہ وہ حکمت و صداقت ہے جس کے وار کو روکنے کے لئے کو سپر نہیں۔ اور یہ وہ سحر حلال ہے جو سر چڑھ کر بولتا ہے۔


 


 


 



160