رابطہ کاری اور دہشت گردی حصہ دوم

Posted on at


جس کا واحد حل یہی ہے  کہ پورے ملک کی موبائل فون سمیں از نو جاری کی جائیں  اور موبائل فون کنکشن کےکسی صارف کے اپنے نام پر ہونے کی تصدیق اپنے نام پر ہونے کی تصدیق  موبائل کمپنیوں کی بجائے حکومت خود کرے۔

اس کے علاوہ موبائل سم گھر کے پتے پرارسال کرنا اور  وصول کنندہ کے انگوٹھے کا نشان الیکٹرانک ڈیوائس  کے ذریعے بطور رسید لینے جیسی تجاویز بھی زیر غور ہیں ۔

محرم الحرام کے بعد آغاز اور سکیورٹی معاملات پر غوروخوس کرنے والوں کی مصروفیات کے باعث مشاوتی اجلاسوں کا سلسلہ رک گیا ہے۔

تاہم محرم کے فورا بعد  اس سلسلے میں اجلاس ہونا طے ہیں ۔''قومی سلامتی سے متعلق فیصلہ سازی کرتے ہوئے اگر نجی اداروں کی بجائے اجتماعی مفادات کو مدنظر رکھا جائے تو اس سے ممکنہ جانی و مالی نقصانات کو کم کیا جا سکتا ہے۔

موبائل فون اور انٹرنیٹ پر بھروسہ کرنے والے  شدت پسند جانتے ہیں۔کہ ڈیجیٹل فٹ پرنٹ کے ذریعے  ان کا سراغ لگایا جا سکتا ہےاور یہی وجہ ہے کہ  وہ اہم پیغامات کے لیےشخص ذرائع ہی کا استعمال کرتے ہیں۔

پھر علاقائی سطح پر ضمنی تنظیمیں بنائی گئی ہیں جنہیں یہ آزادی ہوتی ہے کہ وہ ہداف و حکمت عملی سےمتعلق فیصلے کرنے میں مرکزی شوریٰ سے منظوری حاصل نہ کریں۔

وزیرداخلہ چودری نثار کے مطابق  تحریک طالبان پاکستان کے 36یا 37 ضمنی تنظیمیں ہیں''۔

سیکورٹی امور کے ماہر کا کہنا ہے کہ مسئلہ یہ نہیں کہ پاکستان کی  اعلیٰ تربیت یافتہ فوج  اور جملہ وسائل سے  لیس سیکورٹی  اداروں کا مقابلہ ایسی قیادت سے ہے جو بہت ہوشیار ہے بلکہ پاکستان کا مقابلہ بیک وقت ملک کے خفہ اداروں سے ہے جو کہیں فرقہ واریت تو کہیں نسلی و لسانی تعصبات کی آڑ لے کر ملک کو کمزور کر رہے ہیں۔

 چار اور پانچ نومبر کے روز کراچی میں ہونے والی ہلاقتوں پر نظر ڈالیں،36 گھنٹوں میں جن ایک درجن لوگوں کو قتل کیا گیا،ان میں سے آدھے شیعہ اور سنی مسلک سے تعلق رکھتے تھے گویا پہلے ایسے چھ افراد کو قتل کیا گیاجس سے شیعہ مشتعل ہوں اور پھر اہلسنت والجماعت سے تعلق رکھنے والوں کو  نشانہ بنایا گیا،جس سے یہ تاثر ملے کہ شیعان علی نے اپنے ساتھیوں کی ہلاقتوں کا انتقام لیا ہے۔

 پاکستان کو کمزور کرنے کی اس حکمت عملی  کے پیچھے ہماری اپنی سیاسی جماعتوں کے اندر بنے ہوئے مسلح دستے بھی ہیں،جو کسی شہر یا علاقے پر اپنا تسلط بر قرار رکھنے کے لیے خوف وہراس کا ماحول برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔

سوچ بچار کا عمل شدت پسندوں کے زیر استعمال رابطہ کاری کے  ذرائع پر ہے کہ اگر انہیں شکست دینا ہے تو ہمیں سبھی امکانات ختم کرنا ہوں گے جس کا فائدہ اٹھا کر وہ وار کر جاتے ہیں۔



About the author

naheem-khan

I am a student

Subscribe 0
160