خاک وطن کا مجکو ہر ذرہ دیوتا ہے-

Posted on at


                                       پتھر کی مورتوں میں سمجھا ہے تو خدا ہے

                                       خاک وطن کا مجکو ہر ذرہ دیوتا ہے-

یہ علامہ اقبال کی نظم "نیا شوالہ " کا شعر ہے- اس نظم میں علامہ اقبال ہندوؤں کی اونچی ذات برہمن سے مخاطب تھے اور انھیں باہمی اختلافات کو ختم کرنے کی گزارش کی کہ ایسے طرز معاشرت کی بنیاد رکھی جائے جس میں ذات پات کو بھول کر ملک کی فلاح و بہبود کے لئے کام کیا جائے-ہر قسم کی مذھبی رنجشوں کو بھلا کر یکجا ہو جانا چایئے اور وطن کی  تعمیر و ترقی کے لئے سوچنا چایئے- علامہ اقبال کی اس پکار پر اس وقت  اگر لبیک کہا گیا ہوتا تو برصغیر میں فتنہ فساد اور جنگ بندی نہ ہوتی یا ہم یوں کہہ سکتے ہیں برصغیر کے ٹکڑے نہ ہوتے-

ہر زی شعور کی سرشت میں یہ بات شامل ہوتی ہے کہ اسے اپنے وطن سے گہرا لگاؤ اور انس ہوتا ہے- انسان تو اپنے وطن سے پیار و محبت کا جذبہ  رکھتا ہی ہے چرند پرند بھی اس جذبے سے سرشار ہوتے  ہیں انھیں  بھی اپنے ٹھکانے سے گہری محبت ہوتی ہے بھلے ہی وو پورا دن ادھر ادھر گھومتے پھرتے رہیں جیسے  ہی شام کا دھندلکا چھاتا ہے یہ اپنے ٹھکانوں کو لوٹ آتے ہیں- اپنے گھونسولوں میں آتے ہے ایک سکون کا احساس ملتا ہے- انسان کی محبت بھی اس کا وطن کے لئے ایسی ہی ہے چاہے جتنا عرصہ بھی وہ  ملک سے دور رہے اپنا وطن اپنا ہی  ہوتا ہے وطن کے لئے پیار کبھی کم نہیں ہو پاتا- حضرت یوسف علیہ سلام کی مثال ہمارے سامنے موجود ہےانہوں نے مصر کے تخت کا تاج پہنا لیکن پھر بھی انھیں اپنا وطن ہی یاد آتا رہا- احمد شاہ ابدالی نے مرہٹوں کو شکست دے کر دہلی پہ حکومت جمای لیکن وو کبھی اپنے دیس قندھارا کو نہ بھلا پاے-

وطن کی مٹی کی اپنی سوندھی سوندھی خوشبو ہوتی ہے اور یہ مٹی بھی اہل وطن کو عزیز ہوتی ہے- ہندو وطن کو ماں مانتے ہیں "دھرتی پوجا" ان کے ایمان کا ایک حصّہ مانی جاتی ہے- باقی دیوی دیوتاؤں کے ساتھ ساتھ وہ  اپنے وطن کی بھی پوجا کرتے ہیں- کہنے کو تو باقی ملک بھی وطن ہی ہوتے ہیں لیکن اپنے ملک کی رسومات اور تہذیب دوسرے ممالک کی رسومات اور تہذیب سے زیادہ پسند ہوتی ہیں- غیر ملکی زبان کے بر عکس اپنی قومی زبان سے زیادہ لگاؤ ہوتا ہے- یہ انسان کی فطرت ہوتی ہے وو اپنے وطن کو باقی ملکوں پی ترجیح دیتا ہے- ملک کے پھل ہوں یا پھول سبزیاں ہوں یا لباس انسان کو ھر چیز سے پیار ہوتا ہے - 

     

محبت قربانی کا دوسرا نام ہے محبت کے کچھ تقاضے ہوتے ہیں- وطن سے محبت کے بھی اپنے  تقاضے ہیں – وطن سے محبت کاتقاضا ہے کہ اگر وطن عزیز پر کوئی آنچ آ جائے تو اہل وطن کا فرض بنتا ہے کہ ہر ممکن کوشش کر کے وطن کو اس آزمائش کی گھڑی سے نکالیں- زندہ اور دلیر قومیں اپنے ملک کے دفاع کے لئے کسی بھی قسم کی قربانی سے نہیں ڈرتیں-  یہ بھی وطن سے محبت کا تقاضا ہے کہ ملکی فلاح و بہبود کے لئے پرخلوص کوشش کی جائے- ہر شخص اپنے فرائض کو دیانتداری سے سر انجام دے- ملک کو خوشحال بنانے کے لئے ہر شہری بھرپور کردار ادا کرے- جو شخص اپنے وطن سے مخلص نہیں ہوتا وہ کسی بھی رشتے سے مخلص نہیں ہو سکتا-

وطن سے محبت ترقی و خوشحالی، اتحاد و اتفاق کی ضمانت ہے-  دنیا کی تاریخ محب وطن ناموں سے بھری پڑی ہے- میجر عزیز بھٹی شہید، ٹیپو سلطان، کمال پاشا، ڈاکٹر بان اور سرور شہید انہی وطن پر مر مٹنے والے ناموں میں سے کچھ نام ہیں-وطن سے محبت کا مطلب یہ نہیں کہ باقی ممالک سے نفرت کی جائے وطن سے محبت باقی ممالک کا احترام سکھاتی ہے-  وطن سے محبت ایک پاکیزہ رشتہ ہے جو اہل وطن کو ایک دوسرے کے قریب لاتا ہے-  



About the author

Kiran-Rehman

M Kiran the defintion of simplicity and innocence ;p

Subscribe 0
160