سر کا درد ایک بڑی سر دردی

Posted on at


سر کا درد ایک بڑی سر دردی


میں اگر اپنی بات کروں تو میں کوئی میڈیکل کا سٹوڈنٹ نہیں ہوں اور کسی بھی بیماری پر کوئی لمبی چوڑی بحث نہیں کر سکتا۔ لیکن پھر بھی اپنے شوق اور وقت کے ہونے کے ساتھ ساتھ کافی مطالعہ کا وقت بھی نکال لیتا ہوں۔ اور اسی مطالعے کی بنیاد پر میں آج کے اس موضوع پر لکھنے جارہا ہوں۔ دینا بھر کے ممالک میں سر کا درد ایک بڑی سر دردی بن چکا ہے۔ کیونکہ سر کے درد کی سب سے زیادہ رپورٹیں سامنے آتی ہیں۔ اس سے پہلے کمر کے درد کو سر دردی کہا جاتا تھا۔ لیکن اب سب سے زیادہ مریض اس سر درد کے ہیں۔


سر کا درد بھی کوئی ایک قسم کا نہیں ہوتا اس کی بھی بہت اقسام ہیں۔ پورے سر کا درد، آدھے سرکا درد، تین چوتھائی سر کے حصے کادرد،سر کے پھچلی سائیڈ یعنی پھچلے حصے میں سر کا درد وغیرہ وغیرہ۔ سر کا درد ضروری نہیں ہے کہ ایک بیماری ہی ہو۔ انسان کا زیادہ تر کام میں مصروف رہنا، زیادہ کام کاج کرنا، زیادہ دیر تک بھوکے رہنا، یا کسی کام میں نظر کا زیادہ استعمال کرنے سے بھی اس تکلیف کاسامنا کرنا پڑ جاتا ہے۔


لیکن تھوڑا سا آرام کرنے سے، کھانا کھانے سے، نہانے دھونے سے بھی اس سے چھٹکاراحاصل ہو جاتا ہے۔ اس لیے اس قسم کے سر درد سے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ لیکن اگر یہ سب کرنے سے بھی سر کا درد جان نہ چھوڑے تو پھر کسی بھی اچھے ڈاکٹر سے رجوع کرنا چاہیے۔ اور اس کے مشورے کے مطابق دوائی استعمال کرنی چاہیے۔


ایسے بہت سے افراد کم دیکھنے کو ملے ہیں جو اس بیماری سے باکل لا تعلق ہوتے ہیں۔ یعنی انہیں پتہ ہی نہیں ہوتا کہ یہ سر کا درد کس بلا کا نام ہے۔ لیکن ایسے ایسے بھی افراد اور کیس دیکھنے کو ملے ہیں۔ جو صرف اس سر درد کی وجہ سے اپنے پھچلے کئی سالوں سے سکون کی نیند نہیں سو سکے۔ یہ ایک تعجب کی بات ہے۔ لیکن ان کی بات کی سچائی کو ثابت کرنے کے لیے ہمارے پاس چونکہ کوئی آلہ تو موجود ہے نہیں۔ تو اس لیے ان کی بات کو ہی سچ ماننا پڑے گا۔


اس کے علاوہ سر کا درد ہی نہ صرف بلکہ جسم کے کسی بھی حصے میں درد آنے والی بیماریوں کی اطلاع دیتا ہے۔ کیونکہ یہ ایک چوکیدار کے طور پر کام کرتا ہے ہمارے جسم میں۔ اس لیے ضروری بات یہ ہے کہ اپنی صحت کا خیال رکھتے ہوئے کسی بھی حصے میں درد ہونے کی شکائت کی صورت میں کسی بھی اچھے ڈاکڑ سے رابطہ کرکے مکمل علاج کروایا جائے۔ کیونکہ کچھ بیماریاں اتنی خطرناک ہوتی ہیں کہ جان لیوا ثابت ہوسکتی ہیں۔



About the author

160