اقبال بحثیت شاعر (حصہ دوئم (

Posted on at


اقبال کے چند اشعار مدرجہ ذیل ہیں 

نہ آتے ہمیں اس میں تکرار کیا تھی

مگر وعدہ کرتے ہوے عار کیا تھی

تامل تو تھا انکو آنے میں قاصد

مگر یہ بتا طرز انکار کیا تھی

تاہم ان اشعار میں بھی یک گو نہ شوخی ،سادگی و پرکاری اور بے ساختہ پن موجود ہے – اقبال کو بخوبی احساس تھا کہ وہ روش تقلید کا شکار ہیں – چنانچے انہو ں نے غزل کو رسمی پابندیوں  کےسلاسل سے آزاد کرنے کا عزم صمیم کر لیا –حسب ذیل اشعار ان کے اسی عزم کی غمازی   کرتے ہیں 

١٩٠٨

تک کہی گئی کا تجزیہ کیا جاے تو معلوم ہوگا کہ اس تمام عرصے میں اقبال کی غزل ایک عبوری دور سے گزرتی رہی ہے –یعنی ان کی فکر تو نئی نئی راہیں ڈھونڈتی رہی لیکن ان کا فن ،ہیت کی روایتی پابندیوں کا اسیر رہا –چند مثالیں یوں ہیں

 ان اشعار میں اقبال نے غزل کو ہیت کی روایتی پابندیوں کے ساتھ قبول کیا ہے –لیکن روایتی موزوہات کو ترک کر کے وہ فکری اعتبار سے آزاد فضاؤں میں ماہل بہ پرواز ہیں – یہاں نہ صرف ان کا لہجہ مختلف ہے بلکے دیگر شعرا ہ کی نسبت ان کی غزل کا ذائقہ بھی مختلف ہے- اب ہم کلام اقبال کے چند ایک نمایاں اوصاف کا جائزہ لیتے ہیں-

اسلوب بیان:

اقبال کا اسلوب بحثیت مجموعی دہی ہے جس کو غزل کا روایتی اسلوب کہ سکتے ہیں اور جس کا جوہر رومانیت ہے – یک اعتبار سے ہم اقبال کے اسلوب کو "کلاسیکی اسلوب "کہ سکتے ہیں –لیکن جہاں تک الفاظ و ترکیب کے حسن انتخاب کا تحلک ہے ،اقبال ہمیں جدید شعر اے ادرو میں سب سے زیادہ ممتاز نظر اتے ہیں –ان کا اصل اجتہاد یہ ہے کہ انہوں نے پرانے الفاظ و فقراط اور پرانے اسالیب و روایات کو یکسر نیے انداز سے استمعال کیا ہے –چنانچہ مگر بنظر غائردیکھا جاے تو اقبال کا اسلوب ہمارے انداز بیک وقت قدامت و جدت اور پختگی و تازگی دونوں کا مرکب احساس پیدا کرتا ہے –مثلا نہ سلیقہ مجھ میں کلیم کا،نہ قرینہ مجھ میں خلیل کا میں ہلاک جادو اے سامری ،تو قتیل شیوہ آزری میں نواے سوختہ در گلو ،تو پر یدہ رنگ ،رمیدہ بو میں حکایت غم ارزو،تو حدیث ماتم دلبری شعار بطور مثال مدرجہ ذیل ہیں-



About the author

aroosha

i am born to be real,not to be perfect...

Subscribe 0
160