اجتماعیت سے فرار ۔۔۔۔آخر کب تک؟

Posted on at


المیہ ہمارا یہ ہے کہ ہم اجتماعیت کو چھوڑ کے شخصیت پرستی کے مرض میں مبتلا ہوگئے ہیں تاریخ کا مطالعہ بھی اگر ہم کرتے ہیں تو اس میں بھی انفرادیت او ر شخصیت پرستی کا عنصر نمایاں ہوتاہے اور حال میں بھی ہمارا یہ حال ہے کہ ہم ہیرو ازم کا شکار ہیں اور کسی ایک فرد سے امید لگا کر یہ توقع کرتے ہیں کہ بس ہمارے مسائل یہ ایک شخص ہی حل کر سکتا ہے زرداری، عمران ،نواز شریف فضل الرحمان اور پیر شیخ رشید اور بس ۔
اسکا عملی مظاہرہ یہ ہوا کہ پوری قوم کی نظریں گزشتہ کچھ مہینوں ص ؁ عمران خان کی طرف اٹھ گئی تھی اور ہر شخص اس انتظار میں تھا کہ عمرانصاحب کب الہ دین کے چراغ کے ساتھ کب تشریف لاتے ہیں اور ہمارے مسائل حل کرتے ہیں عوام میں جوش بھی تھا ولولہ بھی تھا اور جزبہ بھی تھا انکے شایان شان تیاریاں بھی کی گئی تھی شیر کے طرح آجائیگا اور چھاجائگا لیکن ان کے امیدوں پر حالیہ الیکشن میں پانی پھیر گیااور صورت حال عوام کے سامنے ہے۔
اسی طرح اب ہماری توقعات آرزوؤں اور امیدوں کا مرکز زرداری ہے کہ کہ جادو کی چھڑی ان کے پاس ہے اور وہ تمام مسائل کو حل کردینگے اور قوم کے وارے نیارے ہوجائنگے اسی طرح چند اور چہرے بھی ہیں جن سے ہم نے توقعات وابستہ کی ہیں کہ وہی سب کچھ ہیں اور باقی سب ہیچ ہیں ۔ اسی طرح سابق کرکٹراور موجودہ سیاسی لیڈر میاں صاحب بھی لوگوں کے مطمع نظر ہیں حالیہ ضمنی الیکشن میں کچھ کامیابی ان کو ملی ہے ان مخالف فریق ان کی کامیابی کو بس ضمنی ہی قرار دے رہے ہیں اسی طرح موٹے قاف والے ایم کیو ایم اور دیگروشن خیال جماعتوں کے اتحاد کو ملک بھی و قوم کیلئے ناگزیر قرار دے رہے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ ساری روشنیاں ان کے روشن خیالی کے فلسفے کے ساتھ ہیں اور خدا نہ خواہ ستہ اگر وہ نہ رہے تو پھر تاریکی ہی تاریکی ہے ۔
یہ دور زوال کی نشانی ہے کہ مخلوق خدا پر ظلم ہوتا ہے اور غریب عوام آٹے کے تلاش میں سرگرداں ہیں اور مارے مارے پھیر رہے ہیں اور رہبران استعفیٰ دے اور نہ دے کے چکر میں پڑے ہیں عوام کو ان کے استعفوں کی نہیں آٹے کی ضرورت ہے ہمارے یہ لیڈر جن سے ہم نے امیدیں وابستہ کی ہوئی ہیں یہ ایک قسم کی ذہنی عیاشی کے مرض میں مبتلا ہیں ان کے پاس عوام کی ترقی کا کوئی پروگرام نہیں ہے حکمران عوام پر ظالمانہ ٹیکس لگا کر ان کی ذندگی اجیرن کرتے ہیں اور عام آدمی کوروٹی کی تلاش نے اس قدر مصروف کردیا ہے کہ اسے اپنے اخلاق کی بہتری اور آخرت کی ذندگی کے بارے میں سوچنے کا کوئی وقت نہیں ہے جبکہ ایک خوش آمدی اور آرام طلب طبقہ وجود میں آیا ہوا ہے جو بغیر محنت اور مشقت کے قوم کی دولت کو اپنے لئے شیر مادر سمجھتاہے ۔
قوم کے جو لیڈر ہیں ان کے پاس عوام کو ترقی دینے کا کوئی پروگرام نہیں ہے یہ صرف وقت کو دہکہ دیتے ہیں اور ٹائم پاس کرتے ہیں البتہ بے کار مباحثوں میں یہ خوب ماہر ہیں جب بھی دیکھو یہ اس قسم کے مباحثوں میں مصروف ہوتے ہیں اور عوام کے ذہنوں کو الجھانے کی کوششوں میں لگے رہتے ہیں حالانکہ عوام بے چاروں کے پاس تو سر کھجانے کیلئے بھی وقت نہیں ہوتا ہے اسی طرح رھبران قوم بے کار سرگرمیوں پر کروڑوں روپئے خرچ کرتے ہیں جبکہ غریب عوام سے ٹیکس لینا یہ ضروری سمجھتے ہیں اور عوم کی فلاح پر خرچ کرنا انہیں گراں گزرتاہے یہ سب کچھ شخصیت پرستی کا شاخسانہ ہے جوکہ سیاسی ، معاشی اور سماجی تشکیل کی راہ میں رکاوٹیں ہیں اور اچھے اور برے کی تمیز مشکل ہے اور اسی شخصیت پرستی نے فرقہ واریت اور مرعوبیت کو جنم دیا ہے اور اس کے نتیجے میں عوام مایوس بھی ہوگئے ہیں اور بزدل بھی اور شعور سے بے گانگی کا مرض بھی پھیل رہا ہے



About the author

MadihaAwan

My life motto is simple: Follow your dreams...

Subscribe 0
160