قارئین!آداب۔۔۔قومی اسمبلی میں اجلاس کے دوران اچانک اس وقت ماحول کی رُت بدل گئی جب آزاد رکن اسمبلی جمشید دستی نے نکتہ اعتراض پر اپنی مستی کا پرچم بلند کرنے کا عزم کیا اور لگے معزز پارلیمان پرسنگین الزامات کی برسات کرنے!کرکٹ کی زباں میں ان کا ہر الزام اپنی جگہ کہِیں چوکا تھا تو کہِیں چھکا!انہوں نے کہا،’’پارلیمنٹ لاجز میں شراب،چرس اور لڑکیاں لائی جاتی ہیں،سالانہ چار سے پانچ کروڑ روپے کی شراب آتی ہے،سو سے زائد ارکانِ پارلیمان غیر اخلاقی سرگرمیوں میں ملوث ہیں،کمروں میں مُجرے کرائے جاتے ہیں،پارلیمنٹ لاجز میں داخل ہوں تو وہاں سے چرس کی بدبُو آتی ہے،اس کے علاوہ ارکانِ پارلیمان کے کمروں میں شراب لائی جاتی ہے،‘‘الزام کی بوچھاڑ جب قدرے تھمی تو سپیکر نے کہا،’’اگر ان کے پاس کوئی ثبوت ہیں تو پیش کریں اور اگر اس میں کوئی ملوث پایا گیا تو اس کے خلاف کارروائی کی جائے گی چاہے اس کا تعلق حکومتی بینچوں ہی سے کیوں نہ ہو،لیکن اگر وہ اس الزام کو ثابت نہ کر سکے توپھر ان کے خلاف کارروائی کا فیصلہ ایوان کرے گا،‘‘تا ہم جمشید دستی نے استقامت دکھائی اور کہا کہ ان کے پاس پارلیمنٹ لاجز میں ہونے والے ایک مُجرے کی قابل اعتراض وڈیو موجود ہے جو وہ سپیکر کو حوالہ کر دیں گے،‘‘(دستی نے اپنا عہد نبھا کر 3 مارچ کومذکور فوٹیج سپیکرکے سپرد کر دی اور پھر 4مارچ کو ایک خصوصی تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دے دی گئی)،اگر تو تحقیقاتی کمیٹی کا منشاء سچ تک رسائی حاصل کرنا ہے تو پھر اس سے زیادہ منصفانہ اقدام کوئی دوسرا ہو ہی نہیں سکتا،بعض حلقوں میں یہ وسوسہ بھی عام ہے کہ پندرہ روز بعد تحقیقاتی کمیٹی کی پوٹلی سے جو کچھ برآمد ہونا ہے وہ کچھ اس نوعیت سے زیادہ مختلف نہیں ہو گا،’’کمیٹی دن رات کی انتھک محنت ،رت جگوں اور معاملات کی جزئیات کی مکمل عرق ریزی کے بعد اس نتیجہ پر پہنچی ہے کہ دستی کے الزامات بادی النظر میں کوئی اول فول شے لگتے ہیں،سچ کہیں تو یہ الزامات دستی کی بدنام تعلیمی ڈگری اور اب تک ہُوئے اکثر (فرضی)پولیس مقابلوں سے زیادہ جعلی لگے!ہمارے اس قیاس کی اہم شہادت عابد شیر علی کے گرجدار رد عمل سے بھی ملتی ہے جب انہوں نے کہا،’’دستی کا ذہنی توازن درست نہیں،دستی نے جاہلانہ انداز میں گفت و گُو کی،پارلیمنٹ لاجز میں ارکان اسمبلی اپنی فیملی کے ساتھ رہتے ہیں،خواتین ارکان بھی ہوتی ہیں،سخت سیکورٹی ہوتی ہے،وہاں پرندہ بھی پر نہیں مار سکتا،دستی گذشتہ چھ سالوں سے اسی پارلیمنٹ لاجز میں رہ رہے ہیں ،چھ سالوں کے بعد ان کو ایسا کون سا بخار چڑھ گیا ہے کہ پورے ایوان پر اتنی بڑی تہمت لگا دی،اس معاملہ کیتحقیقات ہونی چاہیے اور اس طرح کے جاہلانہ الزامات پر دستی کو نااہل قرار دینا چاہیے،دستی خود تیل چوری میں ملوث ہے،‘‘قارئین!اگر تو پارلیمنٹ لاجز میں کوئی ناپسند سرگرمیاں برپا ہوتی رہی ہیں تو پھر انہیں منکشف کرنے کی دستی کی کوشش کو جاہلانہ گفت و گُو کی تشریح دے دینا کہیں کا انصاف نہیں،دوسرے اس طریق سے سچ کی نگہداشت کی جو بھاری ذمہ داری معزز ایوان پر عائد ہوتی ہے اس سے کوئی فرارحاصل کر سکتا ہے اور نہ ہی ایسا کوئی بھی عمل ایک مردانہنہ وار قدم ہو گا!مانا کہ دستی کے سیاسی منظر نامہ پر اس کی جعلی ڈگری کی چھاپ نمایاں ہے،تا ہم ان کا حالیہ انکشاف اپنی تہلکہ خیزی کے سبب ایسا ہر گز نہیں کہ کوئی اس کو دستی کی مستی کا نام دے کر ہُشیاری سے آگے بڑھ جائے یا پھر اس سارے واقعہ کو بکواس، گردان کر بھول بھلا دیا جائے!وزیر مملکت بجلی و پانی عابد شیر علی نے جب کہا کہ دستی کا ذہنی توازن درست نہیں تو ایک بات کا ہمیں یقین ہو گیا،وہ یہ کہ اگر عابد شیر علی ایک وزیر مملکت کی جگہ کوئی ماہرِ نفسیات ہوتیتو وہ نفسیاتی الجھنوں،مہنگائی اور استیصال کی ڈسی قوم کی زیادہ بہتر انداز میں خدمت کر سکتے تھے!جامعہ بنوریہ عالمیہ کے مہتمم شیخ الحدیث مفتی محمد نعیم نے انتہائی جامع اور مدلل تبصرہ کر کے اس بات کے استردادکی تدبیر کی کہ دستی کا ذہنی توازن درست نہ ہے!انہوں نے لطافت سے کہا،’’گھر کے بھیدی نے لنکا ڈھا دی!‘‘اُدھر’’مٹی پاؤ فیم‘‘بھیا چوہدری شجاعت نے اپنے محتاط اور سُگھڑردعمل میں چشم کشا بات کہہ دی،’’اس طرح کے الزامات کیلیے یہ وقت نامناسب تھا،‘‘ظاہر ہے امن و امان کے نامساعد حالات اور حکومت اور قوم کو درپیش مشکلات و آفات کے تناظرمیں انہوں نے یہ باتکہی ،انہوں نے کہیں بھی تو دستی کوخبطی یا ایبنارمل قرار نہیں دیا،ان کا البتہ معاملہ کی ’’ٹائمنگ‘‘پر کچھ اعتراض سامنے آیا جو اس بات کی دلیل ہے کہ اتنی بڑی بات ہو جانے کے بعد جیسے وہ چاہ کر تھوڑاکہہ گئے اور شایدیہ کہتے کہتے رہ بھی گئے،’’اجی مٹی پاؤاور کوئی ہور گَل کرو!‘‘ہماری دانست میں دستی نے جس ہمت سے ایک ناپسند اور مخفی معاملہ کو سامنے لانے کی کوشش کی وہ اپنی جگہ ایسی ہمت کی اکلوتی مثال ہے جس کی بہ ہر حال تحسین ہونی چاہیے تھی نہ کہ کوئی غضب ناکی سے انہیں وینا ملک سے مشابہت دے کر اپنے دل کی بھڑاس نکالے!عابد شیر علی کا یہ فرمانا کہ اتنے عرصہ بعددستی کو ایسا کون سا بخار چڑھ گیاجو وہ اتنے جاہلانہ بیانات پر اُتر آئے،سراسر بے محل ہے ،ایک کُند ذہن بھی جانتا ہے کہ ایسے کثیف الزامات زباں پر لانے میں سمہ(وقت)تولگتا ہے!دستی نے جس ڈھب سے لنکا ڈھانے کی اپنی سی کوشش کی اس پر ہمیں یونان کے ایک دیوتا سیرت خِرد مند دیو جانس کلبی رہ رہ کر یاد آنے لگے،وہ عظیم لیکن مفلوک الحال دانش مند اپنے عہد کا ایک جگ مگ ،جگ مگ کرتا استعارہ تھا جسے سچ اور دیانت سے پُوجا کی حد تک لگاؤ تھا،دیو جانس وہ تھا جو یونان کے ایک شہر میں دن کے اُجالوں میں بھی ایک ہاتھ میں لالٹین لے کر پھِرا کرتا تھا تا کہ دیانت داری کو تلاش کر سکے،ایک دن دیو جانس کے ایک گہرے آ ؔ رزومند نے اسے اسی حالت میں دیکھ کر پوچھنے کی ہمت کر لی،’’اجی آپ یہ کیا کرتے رہتے ہیں؟‘‘جواب ان کا آیا،’’میں دیانت داری کی تلاش میں مارا مارا پھرتا ہُوں لیکن وہ (بد نصیب)کہیں نظرہی نہیں آتی!‘‘سچے قدردان نے موقع غنیمت جان کر ایک اور سوال داغ دیا،’’آپ اتنے متوازن،عاقل اور بھلے انسان ہیں تو پھر لوگ آپ کو کلبی کیوں کر کہتے ہیں؟‘‘دیو جانس فطری متانت سے یُوں گویا ہوا،’’جب میں طاقت ور اور جابر کے سامنے حق بات کرتا ہوں تو انہیں گراں گزرتی ہے جس پر وہ جل بُھن کر سمجھتے ہیں جیسے میرے منہ سے کُتے سے جھڑ رہے ہوں،پس انہوں نے مجھے کلبی کے نام سے پکارنا شروع کر دیا!‘‘یاد رہے کہ یونانی زبان میں کلبی کے معنی ہیں ’’کُتوں والا!‘‘یہ دیو جانس کی حق بات کہنے کی سرشت ہی تھی جس کی سزا کے طور پر اس کا نام کلبی کی حیثیت سے شروع ہو کر قیامت تک کے لیے بلند ہو کر رہ گیا! آمدم بر سرِ عنوان،عابد شیر علی کا یہ کہنا خود تعریفی سے کم نہیں کہ پارلیمنٹ لاجز میں تو چڑیا بھی پر نہیں مار سکتی!آج تک رُونما ہوئے دسیوں سانحات اس بات کے گواہ ہیں کہ حکومت یا قانون کے نفاذ کے ذمہ داروں نے جس جگہ کو بھی حساس خیال کیا اور اسے احتیاطی تدبیر کے مانند سیکورٹی زون یا ہائی پروفائل ایریا قراد دیاتووہِیں امن اور انسانیت کے بدخواہوں نے حفاظتی اقدامات کو بُری طرح پامال کر کے انسانی زندگیوں کے نہ صرف بیش قیمت چراغ بجھا کر دکھایا بلکہ امن کو ترستے لوگوں میں خوف و ہراس کی ایک نئی لہر پیدا کر کے دم لیا!چڑیا سے یاد آیا،جیو نیوز ٹی وی چینل کے پروگرام’’آپس کی بات ‘‘میں ایک چڑیا بڑی دُور کی کوڑیاں لانے کی پریکٹس کرتی تھی،آپس کی بات یہ ہے کہ بھیا نواز شریف کو یہ چڑیا اتنی اچھی لگی کہ اب وہ پاکستان کرکٹ بورڈ کی چیئر پرسن کا منصب اپنی چُونچ میں دبا کر خوشی سے کُپا ہونے کے درپے ہے،اب یہ چڑیا دُور کی کوڑیاں لانے کی کڑوی ذمہ داری چھوڑ چھاڑ کرکٹ کی رنگینی اور اپنی بے پناہ تنخواہ اور مراعات کے ساتھ چہک چہک کر اپنے حاسدوں کو جلانے کا کام کرے گی،دستی نے پارلیمنٹ لاجز میں جب کچھ نامناسب دیکھا تو انہیں لگا کہ ضرور کسی نہ کسی دن یہ چڑیا اس منظر کو اپنے پروگرام کے توسط سے آشکار کر دے گی،دستی انتظار کرتے کرتے جب ناامید ہونے کے نزدیک پہنچے تو دور کی کوڑی لانے کی ذمہ داری انہوں نے آخرِ کار اپنے سر لے لی،اس کے بعد کا تماشہ اب کسی سے پوشیدہ نہیں،عابد شیر علی کا یہ کہنا کہ دستی خود تیل چوری میں ملوث ہے بجائے خود قوم کے ساتھ ایک کم تر مذاق سے کم نہیں!قوم یہ پوچھنے کا حق کیا نہیں رکھتی کہ جو حکومت ایک تیل چور کی گرفت کرنے سے قاصر ہے اس کے اپنے تِلوں میں تیل نہیں یا پھر کوئی جھوٹی مصلحت حکومت کو ایک تیل چور کا محاسبہ کرنے کے نیک کام سے یُوں روک روک دیتی ہے؟شاید یہ اسی طرزِتغافل کا ثمر ہے جو حکومت کو دستی کے الزامات کے سبب شدید خفت اور سُبکی کا سامنا کرنا پڑ گیا!یاد آیا،دستی جب الزامات کی رو میں بہہ کر تکان کا شکار ہوئے تو ایم کیو ایم کے رکن اسمبلی نبیل گبول نے آگے بڑھ کر ان کی کمی محسوس نہ ہونے دی،وہ کہنے لگے،’’رات کو میں نے دیکھا کہ پارلیمنٹ لاجز میں ڈائن نما عورتیں گھوم رہی تھیں،میں ڈرگیا کہ واقعی ڈائن تھیں،جمشید دستی کا ایک پڑوسی تو یہاں اندر آکے بھی چرس پیتا ہے،‘‘عابد شیر علی کے بہ قول دستی تو ٹھہرے سدا کے ذہنی ایبنارمل!تو خدا کے لئے اب ایک لمحہ شائستہ گفتار نبیل گبول کی باتوں کو جہالت پر محمول کرنے کے بے فائدہ کام سے مجتنب رہ کر قوم کو یہپوچھنے کا اتنا حق تو دیں کہ کیا یہ ڈائن نما عورتیں کسی کو ملک کو درپیش گھمبیر مسائل سے نجات کا نُسخہ سمجھانے کی خاطر ان لاجز میں آتی جاتی نبیل گبول کونہ صرف دکھائی دے گئیں بلکہ وہ انہیں دیکھ کر سہم سے بھی گئے کہ واقعی ڈائن ہیں!قوم کو اب یہ جاننے کا شوق ستاوے ہے کہ ان ڈرانے والیوں کا پارلیمنٹ لاجز سے آخرکیا تعلق بنتا ہے!ہمارے ہاں مسلمہروایت رہی ہیکہ متعدد بار کتنے ہی ہولناک باب کسی طرح سے تھوڑے ظاہر ہو گئے لیکن پھروقت گزرنے کے ساتھ ان باتوں پر مصلحتوں اور مادی اغراض کی تہیں جما دی گئیں اور یُوں ایک دن نوبت اِن،اَن ا کہے افسانوں کے کھنڈر ہو جانے پر جا کر غارت ہو گئی!ہم ایک عامی کی حیثیت سے دستی کی باتوں کی سرِدست توثیق کر سکتے ہیں اور نہ ہی ان کے الزامات کی آڑ لے کر دستی کی ہنسی اُڑانے کا ہمیں کوئی حق حاصل ہے!ڈی آئی جی سیکورٹی کا یہ کہنا کہ سیکورٹی اہلکاروں کے پاس تلاشی کے اختیار نہیں،اس پر مستزاد،سپیکر کا یہ ارشاد فرمانا کہ کمروں میں کوئی جو چاہے کرے،ہمیں اس سے کیا!‘‘یہ دونوں نکات اس احتمال کو تقویت دے رہے ہیں کہ’’کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے!‘‘ہمارا اپنا مشاہدہ(جو مشاہد حسین کی دل فریب فطری مُسکراہٹ اور ذہانت دونوں سے کم نہیں اور اس پر ہم شکر گزاری بھی دکھانے والے ہیں!)یہ ہے کہ یہ کوئی ضروری بھی تو نہیں کہ اگر کوئی جگہ بڑی معتبرہے اور معاشرہ اسے تحسین اور تکریم کی نظر سے دیکھتا ہے تو پھر یہ بات طے ہے کہ وہاں سِرے سے کوئی ناپسند سرگرمی رُونما ہو ہی نہیں سکتی!دستی کے الزامات کے ردعمل میں بھی یہی صورت درپیش نظر آئی کہ پارلیمان کو مقدس گردان کر دستی کو کئی اطراف سے مطعون کیا گیا!یہ دیکھ کر ہمیں ایبٹ آباد کا ایک معتبرمقام یاد آنے لگا،شہر کے وسط میں ایک عمارت پڑتی ہے جس میں برسوں پہلے ایک مُدت تک کم و بیش وہی کچھ ہوتا رہا جس کے اشارے دستی کے الزامات میں’’ الف ‘‘سے لے کے’’ے‘‘!تک میں ملتے ہیں،بہ قول کَسے وہاں بھی چڑیا پر نہیں مار سکتی تھی،اگر اس مقام پر پولیس نامناسب سرگرمیوں کے آغاز ہی میں چھاپہ زنی کرتی تو بات اتنی بڑھنے کی نوبت ہی پھر کیوں آتی؟ایک دن رات کو دورانِ گشت ایک فرض شناس اور دلیر (نوجوان)پولیس آفیسر کو کسی طرح سے اس بات کی بھنک پڑ گئی کہ مذکور مقام پر تقدیس کے پردوں کے پیچھے کچھ غلط بھی ہوتا ہے تو انہوں نے وہاں دم مار کر دکھایا اور وہاں سے خاصی شراب برآمد کر کے ایک ہلچل سی مچا کر رکھ دی،وقت گزرنے کے ساتھ یہ معاملہبھی ایک بُھولی داستان بن گیا!جب ہم زیر نظر کالم کی آراستگی میں منہمک تھے تو ایک باخبر نے ہمیں ایک انتہائی انکشاف انگیز قصہ سُنا دیا!اگر آپ ساتھ دیں تو تھوڑی دیر مَری کی سیر بھی کر لیتے ہیں اورپھر اس واقعہ کے خدوخال اور دستی کے الزامات میں کوئی ممکنہ نسبت بھی دلہی دل میں تلاشتے ہیں!پی پی کی حکومت کی ایک انتہائی قد آور شخصیت کو مَری کے پُر کیف مقام پر ایک تقریب میں مدعو کیا گیا،بھیدی کے مطابق اس تقریب کا انعقاد ایک لگژری ہوٹل میں کرنا طے پایا تھا،ہوٹل کیا تھا عربی زبان کے نام کی طرز اور ادائے کافرانہ میں بھی کچھ کم نہ تھا!بھیدی نے تیقن کے ساتھ بتانا شروع کیا،’’یہ کہنے کو تو مقتدر لوگوں کی ایک پر تکلف تقریب تھی لیکن اپنی اصل کے اعتبار سے ایک توبہ شکن ڈانس پارٹی تھی جو اس جگہ برپا کرنے کی اپنے تئیں بھر پور کوشش فرمائی گئی کہ جہاں پرندہ بھی پر نہ مار سکے!(ویسے آپس کی بات ہے جہاں شراب نوشی کا مغلظ سلسلہ، شب بھر رات کو سونے کا پڑاؤمعلوم نہ ہونے دے اور جہاں پے منٹ پر لائی گئی دوشیزائیں اپنے مستانے رقص کے سحر سے حاضرینکے ہوش اڑاتی رہیں ،وہاں کسی معصوم پرندہ کو جا کر تاک جھانک کرنے یا پھربے مقصد پر مارنے کی ضرورت ہی کیا ہے؟)،بھیدی بولا،’’جب رات رقص اور شراب نوشی کے رنگ میں پوری طرح سے رنگ گئی تو ناچنے،تھرکنے والیوں کے جلوے دیکھ دیکھ کئی شرکاء آپے سے باہر ہونے پر مجبور ہونے لگے،اب وہ آگے بڑھ کر ناچنے والیوں کے لہکتے بدن کے ساتھ چمٹ کر خود بھی لہرانے کی مشق کرتے نظر آتے،ان میں سے بعض نے زیادہ ہی پی رکھی تھی ،سو وہ انتہائی خراب حرکات کرنے سے بھی باز نہ آئے،ان کی شدید قابل اعتراض حرکات سے تنگ آکر ناچنے والیاں مصنوعی خفگی کا تاثر اپنی گفتار میں بھگوکر صرف اتنا کہہ دیتیں،’’Ouch!‘‘،بھیدی کے مطابق اس شب ڈانس پارٹی کے موقع پر متذکرہ ہوٹل کے دور تک سیکورٹی کا ایک ایسا حصار بنایا گیا تھا کہ سچ مچ کوئی پرندہ بھی وہاں پر نہیں مار سکتا تھا!بھیدی کہتا ہے کہ اس رات شراب کی بوتلیں اوپر تلے خالی ہوتی رہیں،ناچنے والیاں بھی خاص طور سے کسی دور شہر سے بُک کر کے لائی گئی تھیں جن کے لیے ڈانس پارٹی کے بعض شرکاء کی خر مستیاں کوئی نئی بات نہ تھی،یہاں یہ بات قابل ذکر ہے اور دل چسپی سے خالی نہیں کہ اس ڈانس پارٹی میں جو مقتدر شخصیت محفل کی شمع تھی ،وہ انتہائی ضبط اور شاید اپنے منصب کا خیال دل میں لا کر محتاط اورمتناسب انداز میں اس سارے شر پسند منظر کے لطف لیتی رہی!اگر ہم اس قابل قدر ہستی کا غلطی سے درست نام لکھ دیں تو مبادا ہمارا جینا حرام کر دیا جائے!ویسے آپس کی بات ہے کہ اس بد نصیب معاشرت میں کون سا عام انسان ایسا ہے جو فقط اتنا کہہ دے کہ اس کا جینا یہاں حلال ہے اور یہ کہ روز روزکے جینے،مرنے سے اس کا کوئی واسطہ نہیں؟قارئین!دستی کے الزامات کی سرجری کے دوران ہم مری نکل گئے تھے،اب دوبارہ اصل موضوع کی طرف آتے ہیں،ایک قومی معاصر کے جید کالم نگار بھیا نذیر ناجی نے تو پورے دو کالمز’’ دستی کی مستی ‘‘کے عنوان سے لکھ مارے،موصوف اپنے ہمہ جہت تجربہ کی بنیاد پر ہم ایسے نو آموزاہل لگن کے لیے رہنمائی اوردل جمعی کا سرچشمہ رہے ہیں تا ہم ان کے متذکرہ کالمز سے لگا جیسے وہ دستی کو کھری کھری سنانے کے لیے ایسی ہی کسی مبارک ساعت کے کب سے منتظر تھے!انہوں نے دستی کو ہدفِ طنز بنانے کے لیے اپنے رومانی تخیل کا اتنا کڑک دار استعمال کیا کہ پڑھنے والے بھی ایک بے نام سے ہیجان میں مبتلا ہو کررہ گئے!اپنے کالم کے دو ابواب میں متنوع دلیلوں کے انبار لگانے کے دوران انہوں نے کہا،’’سو گَلاں دی اِکو گَل،پارلیمنٹ لاجز کے انتظامی امور کی سربراہی کیوں نہ مولانا عبدالعزیز کے سپرد کر دی جائے،وہ تمام منتخب نمائندوں کو پکا مسلمان کر دیں گے اورساتھ دستی کو بھی،سیکورٹی سٹاف رکھنے کی ضرورت بھی نہیں پڑے گی،ان کی اپنی لاٹھی فورس بہت مستعد ہے،‘‘آپ خود اندازہ کریں کہ فاضل کالم نگار نے غیر جانب داری کی مثبت روایت کا گلا دبا کر کتنی محنت سے ان مولانا عبدالعزیز کا کردارمضحکہ خیز انداز میں منقش کرنے کی کوشش کی جن کا دستی کے الزامات سے کوئی تعلق ہے اور نہ ہی کوئی دور پار کی نسبت!ہم پر لکھنے والا ہونے کے ناطہ سے حدِ ادب لازم ہے ،پس اسی حد میں رہ کر یہ پوچھنے کو دل کرتا ہے،’’ہمارے ہم لگن!آپ نے اپنے کالموں میں دستی کا جو تڑکا لگایا اس نے تو سب کا دل ’’گارڈن،گارڈن‘‘کرنا تھا سو کیا،مگر آپ بتائیے ،یہ سب لکھنے پر آپ کو بڑی شاباشی ملنے کی زیادہ بلکہ قوی امید کہاں سے ہے؟عابد شیر علی سے؟دستی تو ہو نہیں سکتے!تو کیا اپنے ایڈیٹر انچیف میاں عامر محمود سے؟یا پھر’’سو گَلاں دی اِکو گَل‘‘اپنے اندر کے انسان سے جسے خدا نخواستہ مذہبی حدود و قیود کی عمل داری یا نفوذ سے زیادہ روشن خیالیوں کے منظردل فریب معلوم ہونے لگے ہوں؟اپنے اسی کالم میں دستی کا طنزیہ پوسٹ مارٹم کرتے میں انہوں نے ایک انتہائی غیر مناسب خدشہ کا ذکر کرنا ضروری سمجھا اور کہا،’’دستی صاحب کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے اپنے حلقے میں تمام برائیاں دور کر دی ہیں اور اب وہ اسلام آباد کو ٹھیک کرنے کا عزم رکھتے ہیں،کیا ایک اور لال مسجد؟‘‘ہمیں بزرگوار کالم نگارسے ادب سے پوچھنا ہے کہ بات تو دستی کے پارلیمنٹ لاجز تک محدود تھی،پھر ان کے ذہن میں پہلے مولانا عبدالعزیز اور فوری بعد لال مسجد کیوں کر آنے لگے؟ہے نا ایک موزوں سوال؟اب ذرا اسی معاصر کے ایک شُعلہ بار،حساس،انسان دوست اور تخیلاتی کالم نگار کی رائے کا جائزہ لیتے ہیں دنیا جن کو ایک دل نشیں رومانی شاعر اور عادل مزاج نثر لکھنے والا خیال کرتی ہے،بے شک ہمارا اشارہ وصی شاہ کی طرف ہے،ان کی خاصیت یہ ہے کہ وہ انسانیت اور ہماری معاشرت دونوں کی بھلائی کا خواب اپنے احساس میں سجا کر روزمرہ منظروں کی صاف گوئی سے سرجری کرتے ملتے ہیں،وصی شاہ نے اپنے ایک حالیہ کالم میں حضرت عمرؓ کے عہد کا سزا و جزا کے مفہوم پر مبنی ایک زریں واقعہ لکھا،پھر کہا،’’مندرجہ بالا واقعہ میں نے پہلے بھی کسی موقع پردرج کیا تھا،مگر آج اس کے یاد آنے کی وجہ دستی صاحب کا وہ حملہ ہے جو انہوں نے پنے ہی ساتھیوں پر کر دیا،تحقیق تو خیر ہونی ہی نہیں،ہوتی تو ضرور پتہ ملتا کہ جب اتنی شدت سے’’دُھواں‘‘اٹھا ہے توپارلیمنٹ لاجز کے کس کس کمرے میں ’’آگ‘‘لگا کرتی ہے،جو شخص ذرا سا بھی پاکستانی پارلیمینٹیرینز اور سیاسیہ کوقریب سے جانتا ہے،اسے خوب علم ہے کہ جمشید دستی جو کچھ فرما رہے ہیں اس میں کتنا سچ ہے اور کتنا جھوٹ،ایک ایسا شخص جو مجذوب نہیں ہے بلکہ ملکی ایوانوں کا اہم حصہ ہے،روز ان ہی لوگوں میں اٹھتا بیٹھتا ہے،ان ہی کے ساتھ کھاتا پیتا ہے جنپر وہ الزامات لگا رہا ہے تو کیا ایسے شخص کے الزامات کے جواب میں ملزموں(شاہ جی کا واضح اشارہ ملزموں کی طرف ہے نہ کہ پارلیمانی لاجز کے ملازموں کی طرف!)کو اسے برا بھلا کہنے کے بجائے خود کو محاسبے کے لیے پیش کر کے اپنی پوزیشن کلیئر نہیں کرنی چاہیے؟مگر سچی بات ہے،سب سے زیادہ حیرت اور رنج مولانا فضل الرحمن کے اس بیان پر ہوا جس میں جمشید دستی صاحب کے الزامات کے جواب میں شفاف تحقیق کا مطالبہ کرنے کے بجائے موصوف نے جو کچھ فرمایا،اس کا لُبِ لباب یہ تھا،باہر دنیا میں کیا کچھ نہیں ہوتاکیا صرف پارلیمینٹیرین گنہہ گار ہیں؟آج پاکستان کی بدحالی کی ایک بڑی وجہ منافقت ہے جو مذہبی طبقے ہوں یا لبرل دونوں میں در آئی ہے،مذہب کے نام لیوا مذہب کو مانتے ہیں،مذہب کی ایک نہیں مانتے،اسی طرح آئین اور قانون کومذہب سے بالا تر سمجھنے والے بھی آئین اور قانون کی بالادستی کا مطالبہ تو ضرورکرتے ہیں مگرخود اس پر عمل نہیں کرتے،جب ہی تو منافقین سے اللہ کی پناہ مانگی جاتی ہے اور اپنے افکار و خیالات پردیانت داری سے قائم رہنے والوں کو زمانہ سلیوٹ کرتا ہے،‘‘آگے چل کر انہوں نے درویشانہ انداز میں لبرل ازم کا پردہ کچھ یُوں چاک کر دیا!’’روشن خیالی ملکی قوانین کو چرس کے دھوئیں میں اُڑانے کا نام نہیں!‘‘شاہ جی جس سپاٹ اوربے باک انداز میں سچ کی گواہی پر کمربستہ رہتے ہیں اس پر ان کو چائے پر بلانے کو دل کرتا ہے،حالانکہ وہ وینا ملک ہیں اور نہ ہی ہم لال حویلی والے شیخ رشیدکہ ایسے تکلف میں الجھ کر خبروں کی زینت بنیں!مزاح برطرف،ہمارادیانت داری سے ماننا ہے کہ وصی شاہ کے احساس میں دیو جانسکلبی کی رُوحکسی نہ کسی جہت میں حلول کرچکی،جب ہی تو وہ اوروں سے جدا لکھنے کا ہنر آزمانے سے رہ نہیں سکتے!صرف وہی نہیں،اس عہد کے لکھنے اورحق دوستی کی شمعیں جلانے والوں میں برادرم عبدالقادر حسن ہوں یا اوریا مقبول جان،ہمارے فکری آئیڈیل (دال دلیا،کالم والے)بزرگوار ظفر اقبال ہوں یا بھائی جاوید چوہدری،بھیا اظہار الحق کی’’تلخ نوائی‘‘ہو یا برادرِعزیز خورشید ندیم (تکبیرِمسلسل والے)،بزرگوارم ہارون الرشید ہوں یا کوئی اور،سبھی اپنے اپنے مقام پر صاف گوئی کا ایک روشن مینار لگتے ہیں،،الغرض سبھی صداقت اور دیانت کے اس اجڑے چمن کے واسطے دل کھول اور اپنا خونِ جگر جلا کر صرف اس امید پر لکھتے ہیں کہ شاید ان کی محنت اوپر والے کو پسند آجائے اور امالک کے فضل سے ایک بارپھر اس اُجڑے چمن کو حق و دیانت کی بہار جیسی فضا راس آجائے!بھائی دستی کے الزامات کا ہو بُرا کہ اس نے ہمارے اچھے خاصے کالم کو ایک فیچر کے رنگ میں رنگ کے رکھ دیا،ویسے آپس کی بات ہے،اگر تحقیقاتی کمیٹی پر کسی کا زبردست دباؤ اپنا کام کر گیا تو پھر لکھ رکھیں کہ دستی کے الزامات کا بھی وہ ہیحشر ہونا ہے جو ہمارے بعض بد عنوان حکمرانوں نے بے چارے اور آئی ایم ایف کے مارے سرکاری خزانہ کا کر کے بھی ہمارا پیچھا نہیں چھوڑا تا کہ موقع ملنے پر ایک اور باری بھی لیتے جائیں!قارئین!دستی کے الزامات کے پیرہن میں دلچسپیوں کے کئی موڑآتے ہیں،اپنے ردعمل میں لیگ(ن)کے رکن اسمبلی رضا حیات ہراج بولے،’’کیا ہم آئین کے آرٹیکلز62اور63پر پورا نہیں اترتے؟‘‘ہمارے پاس ان بھائی کے صائب اور برجستہ سوال کا ایک چُست اور خالص ادبی جواب ہے،’’معزز پارلیمان کے کُل342ارکان کو قوم یا دستی سے یہ پوچھنے کی ہرگز ضرورت نہیں کہ وہ مذکور آرٹیکلز کی روح پر کھرا اور سُچا اترتیہیں یا نہیں،بلکہ انہیں یہی مستند سوال اپنے اندر کے انسان یا ضمیر نام کی نعمت سے کرنا چاہیے ،اس کا انہیں آگے سے جو جواب مل گیا،وہی سچ ہو گا اور ادھر ادھر کا شاید سب فریب!دستی بھائی کے ہم اس لیے بھی مداح ہیں کہ وہ سوال کے نام پر اینٹ برسانے والے کو جواب دینے کے لیے اپنے ہاتھوں میں سنگ (پتھر)پہلے سے اٹھاکر رکھتے ہیں،جب ہی تو انہوں نے یہ مطالبہ کر دیا کہ ارکانِ پارلیمنٹ کا میڈیکل کرایا جائے تا کہ ان کا پتہچل سکے!اب سوچنے کا مقام ہے کہ کیا ارکان اسمبلی کا میڈیکل ہو جانے سے قوم جان جائے گی کہ ارکان نے الیکن کمیشن کے ہاں اپنے اثاثہجات کی جو رام کہانی لکھی ہے،وہ سچی ہے یا جھوٹی؟کیا دستی اپنے (بہ شمول خود)ساتھیوں کا میڈیکل اس لیے کرانا چاہتے ہیں تا کہ جان سکیں کہ کون معمولی بیمار ہے اور کون کسی سنگین بیماری کے باعث بادی النظر میں اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریاں نبھانے کے لائق نہیں مگر پھر بھی ایک ایم این اے کی تنخواہ اور سہولتیں برابرکھری کر رہا ہے؟دوستو!جی نہیں،ایسا کچھ بھی تو نہیں!دستی کا دو ٹوک مطالبہ توصرف اتنا ہے کہ ارکان اسمبلی کا میڈیکل کرایا جائے جسے انگریزی میںToxicology Test کہتے ہیں تا کہ پتہ لگ جائے کہ کون شراب،چرس یا پھر کوئی دوسری مسکن شے کا استعمال کرتا ہے!اس سائینٹیفک ٹیسٹ کی بدولت مفعول کے معدہ کے اجزاء اور خون کے ذرات سے آسانی سے اخذ کیا جاسکتا ہے کہ بہ قول وصی شاہ ،ملکی قوانین کو چرس کے دھوئیں اورشراب کی لذت میں کون،کتنا اُڑایااور کس قدر ڈبویا!!!اوپر والا چاہا تو جلد ملیں گے ایک نئے عنوان کے سنگ!
دستی کی مستی کے پرچم تلے ہم ایک ہیں
Posted on at