توہین عدالت یا توہین انسانیت

Posted on at


توہین عدالت یا توہین انسانیت


حالیہ دنوں میں کچھ ہماری عدالتوں کے منصفین  نے ایسے فیصلے صادر کئے جس سے عدالتوں میں انصاف و شفاعیت کے پول کھل جاتے ہیں اس سے پہلے ایک گلہ رہتا تھا عدالتیں آزاد نہیں ہیں جس کی وجہ سے عدلتی فیصلے اکثر بااثر افراد یا حکومتی حق میں جاتے تھے۔



ابھی تک ہمارے ملک میں وہی صدیوں پرانا انگریزوں کا دیا نظام عدل ہے جو اس نے غلاموں کو دبانے کے لئے اور اپنے سمراج کو تقویت دینے کے لئے بنایا تھا۔ سارا دن اپنا وقت صرف کرکے اور اپنی جیب سے پیسہ لگا کے عدالت سے انصاف کا تقاضہ کرنا۔ انصاف کا طریقہ کار سماعت ہونے بغیر اگلی تاریخ دے دینا اور سالوں تک اس کیس کا جاری و ساری رہنا۔ سوال یہ اٹھتا ہے آزادی کے بعد ان پرانے غلامیت پر ممبنی اصولوں کو کیوں کر نہیں ختم کیا گیا اور آزاد قوم کی حثیت کے طور پر کیوں کر نئے قوانیں مرتب نہیں ہوئے۔  ہماری عدالتیں کیوں کر حق و سچ کی خاطر عوام کو سستا  و فوری انصاف نہیں دیں سکتی۔


گزشتہ ماہ لاھور ہائی کوٹ نے ایک فیصلہ دیا تھا جو عمران خان نے دائر کیا تھا جس کی روح سے انتخابات 2013 میں بعض حلقوں کے پولنگ سٹیشنوں پر دھاندلی کی گئی ، عمران خان کا مطالبہ تھا کہ فنگر پرنٹ کی مدد سے  مبینہ ووٹنگ کی دوبارہ گنتی کی جائے جسے بااثر حکومتی شخصیات کی وجہ سے عدالت کے منصف نے فیصلہ حکومت کے حق میں دے دیا اور عمران خان کے مطالبے کو الیکشن کمیشن  کے دوبارہ کے گنتی کرانے کے مطالبےکو رد کر دیا۔  صاف و شفاف لیکشن کروانا الیکشن کیمشن کی ذمہ داری ہے امیدواروں کے کوائف و اثاجات کی صحیح چانچ پڑتال کرنا اور انہیں انتخابات کے لئے اہل کرنا، لیکن   دیکھا جائے تو الیکشن کمیشن اپنی بنیادی فرض و ذمہ داریاں بھی نہیں ادا کر سکا اس سے یہ امید باند دی جائے کہ وہ شفاف الیکشن کروا سکتا ہے ممکن نہیں۔ امیدواروں کے تعلیمی کوائف ہی کافی بڑی دلیل ہے جو اسمبلیوں و ایوانوں میں براجمان ارکان اسمبلیوں کے جعلی ڈگریوں کے کیس کے طور پر سامنے ہیں۔  امیدواروں کے کوائف کی جانچ بڑتال کے لئے الیکشن کمیشن کو ایک ٹائم فریم دیا جاتا ہے لیکن اس محکمے کی غفلت کا یہ عالم ہے کہ یہ اپنی تعلیمی درسگاؤں سے امیدواروں کی تعلیمی اسناد کی تصدیق بھی نہیں کروا سکتا۔



قارئین اکرام ، عمران خان کے اس کیس کے فیصلے کو ایک سال بعد سنایا گیا اور وہ بھی اس کے خلاف، یعنی سچ کے خلاف، یہ مطالبہ حقیقی و سچا تھا جس سے ہماری عدالتوں کا میعار اور فوری و سستا انصاف کا پول کھل جاتا ہے۔  عمران خان کا یہ مطالبہ ذاتیات سے ہٹ کر اٹھارہ کروڑ عوام کا تھا جس سے اس راز سے بھی پردہ اُٹھ جاتا ہے کہ اس سے پہلے بھی اسی طرح انتخابات میں دھاندلی کی جاتی رہی ہے اور قوم کے اوپر نااہل لوگوں کو جان بوجھ کر بیٹھایا جاتا رہا ہے اور عمران خان کے جرات مندانہ اقدام نے اشرافیہ اور امرا شاہی کے تسلسل حکمرانی کو کاری ضرب لگائی ہے۔  عدالت کے منصف جیسا بھی فیصلہ دے اگر سچ ہے تو اس کی قدر ہے اگر جھوٹ ہے تو اس فیصلے کی کوئی اہمیت نہیں۔  عدالت کو عمران خان کا ممنون ہونا چایئے تھا اتنی بڑی مافیہ گیم کا اقتدار اعلیٰ کے لئے منفی کردار سے پردہ چاک کیا گیا۔  لیکن عدالتی منصفین نے الٹا عمران خان کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کر دیا۔  یعنی کہ اٹھارہ کروڑ عوام کے مفادات کو ٹھکرا کر   ہمارے عدالتی فیصلے ہمارے حکمرانوں کی شطرانہ طرزحکمرانی کو سہارادینے کی  ناپاک جسارت و کوشش ہے ۔  گویا توہین عدالت نہیں ، توہین انسانیت ہے۔



محترم قارہین صاحبان عدالتی فیصلے دنیا میں ہر جگہ چیلنچ ہو سکتے ہیں لیکن   انسانیت کی قدر وقیمت کے فیصلے اٹل و حقیقی ہیں۔ اگر دنیاوی منصف اس حقیقت کو رد کرتا ہے تو کرتا رہے لیکن اللہ تعالیٰ نے انسان کو بڑی عظمت سے نوازہ ہے اور اُسے اشرف المخلوقات کا درجہ دیا ہے۔  اللہ تعالیٰ کی انسان سے محبت ماں کی محبت سے بھی کئی گنا زیادہ ہے ۔ یہی وجہ ہے جدھر ہم  معاشروں میں ظلم و نا انصافیاں دیکھتے ہیں وہاں پر ہم اللہ کی طرف سے قدرتی آفات کی شکل میں عذاب بھی دیکھتے ہیں اور انفرای سطح پر بھی اکثر اُن لوگوں کا عبرت ناک انجام دیکھتے ہیں جو معاشرے میں انسانوں سے زیادیتوں کا مرتکب پائے گئے ہیں۔ دنیا مکافات عمل ہے ہمارے قاضی حضرات اور اشرافیہ ابھی تک اپنے بے رحم اعمال سے باز نہیں آ رہے۔  صرف عدالت کا یہی فیصلہ نہیں جس سے ہماری عدلیہ کے انصاف کا پول کھل جاتا ہے بلکہ اَن گنت روزانہ ہی ایسے کیسوں پر یک طرفہ فیصلے صادر کئے جاتے ہیں جو قومی مفادات کے اہمیت کے ہوتے ہیں  جسے قاضی صاحبان کی نااہلیت اور نالائقیت نظر انداز کر دیتی ہے یہ بھی ہو سکتا ہے اس میں بد عنوانیت کا بھی عنصر ہو جو اس سے پہلے اکثر ہوتا آیا ہے۔


 



160