ڈر - دوسرا اور آخری حصہ

Posted on at


جب بچے بڑوں کی بات ماننے سے انکار کرتے ہیں تو یہ تحائف ان کو ڈرانے کے کام بہت احسن طریقے سے سر انجام دیتے ہیں . بچے کسی بات پرضد پر آمادہ ہو جائیں تو انکو ڈرا کر کام نکلوانے کا یہ نسخہ تیر بہدف ثابت ہوتا ہے مگر ماں باپ یہ نہیں جانتے کے اس طرح سے وہ اپنے بچوں کی ذہنی نشونما کو تباہ کر دیتے ہیں .  ایسے ڈرپوک بچے کیسے آگے چل کر معاشرے کا مفید فرد ثابت ہوں گے جو اندھیرے کمرے اور چھپکلیوں سے خوف کھاتے ہوں، بھوت پریت کا نام سن کر انکی ہوا نکل جاتی ہو اور بادلوں کی گرج سن کر جو ساری ساری رات سو نہ سکیں . ڈرانے کا یہ نسخہ ہر نسل سے اگلی نسل کو منتقل ہوتا رہتا ہے اور خاص طور سے شہروں میں یہ رواج تو بہت زیادہ عام ہے جبکہ اس کے مقابلے میں دیہات میں ایسا رجحان کافی کم دیکھنے کو ملتا ہے کیوں کی دیہات کی خواتین فطری طور پر دلیر واقع ہوتی ہیں اس لئے وہ  اپنے بچوں کی تربیت بھی اسی لحاظ سے کرتی ہیں . جبکہ شہروں میں بڑے چھوٹے بچوں کے معصوم اذہان کو ڈر اور خوف کا تحفہ دے کر یہ بات بلکل ہے فراموش کر دیتے ہیں کہ اس کا نتیجہ کتنا منفی نکلے گا


 


بچوں کا ذہن ایک صاف سلیٹ کی مانند ہوتا ہے جس پر کچی عمر میں آپ جو کچھ مرضی رقم کر دیں پھر وہ ساری عمر کے لئے ان کے ذہن پر انمٹ نقوش چھوڑ دیتا ہے اور اسی لئے والدین کی کہی ہوئی باتیں ،ڈرانے والے جملے اور انکی خوفزدہ کرنے والی باتیں معصوم ذہن کبھی بھلا ہی نہیں پاتا . اور یہ باتیں اور یادیں ان کو نہ صرف بچپن میں بلکہ بہت بعد میں بھی ان کو ڈرانے کا سبب بنتی رہتی ہیں . یہ بات بھی روز روشن کی طرح صاف اور واضح ہے کہ بچوں کے ذہن میں چھپے خوف اور ڈر کو کسی کتاب کی مدد سے سمجھنا نا ممکن ہے . یہ تو کسی معصوم اور خوفزدہ بچے کی وہ دہشت بھری چیخ ہوتی ہے جس کو کبھی زبان اور الفاظ کا سہارا نہیں ملتا اور یہ جذبات اس کے اندر ہی دفن رہ جاتے ہیں اور آنے والی زندگی میں ہمیشہ اس کے لئے خوف اور دہشت کا سبب بنتے رہتے ہیں . بچے کا کچا ذہن اور اسکی خوف سے بھری آنکھیں جس درد اور اذیت سے دوچار ہوتی رہتی ہیں میں، آپ یا کوئی بھی اس کا اندازہ لگانا تو درکنار اس کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتے . اس ڈر میں ہزاروں قسم کے خوف ہوسکتے ہیں جسے کہ تاریکی کا خوف، ڈاکٹروں کی دوائیوں اور ٹیکوں کا خوف ، اندھیری رات میں کسی خوفناک مخلوق سے سامنا ہو جانے کا خوف، کتوں اور دیگر دوسرے جانوروں کا خوف، کسی کو خود سے زیادہ قابل اور برتر سمجھنے کا خوف اور بڑوں کے سامنے کوئی غلطی ہو جاۓ تو سزا کا خوف غرض کہ دہشت کی اتنی زیادہ قسمیں ہیں کے انسانی دماغ کی سوچ کے دائرہ کار میں ہی نہیں آتیں. اس کے علاوہ سکول کے اساتذہ سے ملنے والی سزاؤں کا خوف یا پھر بم دھماکے سے مر جانے کا خوف ایسے ہزاروں ہی ڈر ہیں جن سے ایک معصوم بچہ نبردآزما رہتا ہے 



یہ تمام ڈر اس قدر بے رحم ہوتے ہیں کہ کبھی کبھی ہمارا دل چاہنے لگتا ہے کہ اس ڈر سے سوال کیا جائے کہ خود تم کو کبھی کسی ڈر کے ساتھ رہنا پڑے تو کیسا رہے گا ؟ ان ڈرے ہوئے بچوں کے دل میں خوف کا ایک پورا شہر آباد ہوجاتا ہے . اور جب وقت کے گزرنے کے ساتھ ساتھ ان بچوں میں ڈر کے اثرات ظاہر ہونے لگتے ہیں تو ہم کو ہوش آتا ہے .پاکستانی عوام کا سب سے بڑا مسلہ ہی یہ ہے کہ ہم ہمیشہ اپنے گردوپیش سے آنکھیں بند کئے رکھتے ہیں اور جب تک مسلہ خود آ کر ہمارے دروازے پر براجمان نہ ہو جائے ہم کو اس کی سنگینی کا احساس تک نہیں ہوتا . اور اس وقت ہم ڈاکٹروں کے ساتھ ساتھ جعلی پیروں کے قدموں پر سر رکھنے کو بھی تیار ہوتے ہیں . حالانکہ یہ مسلہ ہمارا اپنا ہی پیدا کیا ہوتا ہے اور ہم خود ہی اس کو حل کرسکتے ہیں وہ ایسے کے اپنے بچوں کو سکون اور اعتماد سے بھری فضا فراہم کریں . ان میں بے جا ڈر اور خوف نہ پیدا کریں اور کبھی انکو کسی مشکل کا سامنا ہو تو ان میں یہ یقین ہونا چاہیے کہ ان کے والدین ان کی مدد کے لئے ان کے پیچھے کھڑے ہیں 



*****************************************


مزید دلچسپ اور معلوماتی بلاگز پڑھنے کے لئے یہاں کلک کریں 


بلاگ رائیٹر


حماد چودھری


 


TAGS:


About the author

hammad687412

my name is Hammad...lives in Sahiwal,Punjab,Pakistan....i love to read and write that's why i joined Bitlanders...

Subscribe 0
160